ایک مراسلہ حافظ مبشرحسین مخلوط انتخابات کے تناظر میں اتحاد وطن اوردین و ملت کا اختلاف قومیت ،ملت اور امت کی رنگ بدلتی اصطلاحیں محترم ایڈیٹر ماہنامہ ’محدث‘ لاہور السلام عليکم ورحمة اللَّه وبرکاته ! ’محدث‘ کا شمارہ مارچ ۲۰۰۲ء نظر نواز ہوا جس میں فکر ونظر کے ادارتی کالموں میں ”بھارتی مسلمان اور ہم! “ کے عنوان سے بھارتی مسلمانوں کی حالت ِزار کے پیش نظر ملت ِاسلامیہ کو سنجیدہ توجہ دلائی گئی ہے اور پاکستان کی اساس ’دو قومی نظریہ‘ کی بنیاد پر اسے پاکستان کا خصوصی مسئلہ قرار دیا گیا ہے ۔مسئلہ کی اہمیت تو مسلمہ ہے تاہم محدث مئی ۲۰۰۱ء صفحہ ۶۵ کے حوالے سیفٹ نوٹ میں جو قومیت اور ملت کا فرق بیان کیا گیا ہے کہ ” قرآن کی رو سے وطن، زبان، رنگ یا نسل کی مشترکہ بنیاد رکھنے والوں کو ’قوم‘ جبکہ مختلف اعتقاد و نظریات رکھنے والوں کو مختلف ’ملتیں ‘ کہا گیا ہے۔“ محل نظر ہے، کیونکہ وہاں مجھے کہیں یہ فرق نہیں ملا بلکہ نسل کے ماسوا وطن ، زبان یا رنگ کی مشترکہ بنیاد رکھنے والوں کو قرآن کی رو سے ’قوم‘ قرار دینے سے احتراز کا پہلو ہی اختیار کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں محدث کے مدیر اعلیٰ حافظ عبدالرحمن مدنی کی قرآن اکیڈمی، ماڈل ٹاوٴن لاہور میں ’ملت‘ کے موضوع پر اہم تقریر جسے بعدازاں محدث اگست ۱۹۸۲ء میں تحریر ی صورت میں شائع کیا گیا تھا، سے بھی وطن، زبان یا رنگ کی بنیاد پر ’قوم‘ قرار دینے کی تردید کی گئی ہے۔ تحریک ِپاکستان میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ’وطن کی بنیاد پر قومیت ‘کے تصور کو نہایت خوفناک قرار دیتے ہوئے اس پر برانگیختگی کا اظہار کیا تھا، ان کے اشعار یوں ہیں : شیخ نہ داند رموزِدین ورنہ ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی ست!؟ سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر از مقامِ محمد عربی ست!؟ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس پرزور تردید پر مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جیسے متبحر عالم دین ’وطن‘ کی اساس پر قومیت‘ کے تصور کی تائید کرنے کی بجائے معذرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور انہوں نے وضاحت کی تھی کہ’ وطن سے قومیت‘ کے تصور سے میری مراد ’اسلامی نظریہٴ قومیت‘ پیش کرنا نہیں بلکہ عصرحاضر کی سیاسیات کی رو سے قومیت کا تصور سامنے لانا تھا کہ آج کل کی سیاسیات میں قومیں ’وطن‘ سے بنتی ہیں ۔ |