آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے اُردو ادب میں آپ کو پاکستانی قوم ،ہندوستانی قوم، امریکی قوم، جرمن قوم وغیرہ کا استعمال عام ملے گا۔ گویا ہمارا موجودہ لٹریچر جس ’قومیت کے تصور‘ کو پھیلا رہا ہے اسی کے خلاف (ایک چیلنج کے طور پر)، پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔لہٰذا ماہنامہ محدث مارچ ۲۰۰۲ء کا ادارتی نوٹ سبقت ِقلم کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔امید ہے کہ آپ اس پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ پاکستان کے دو قومی نظریے پر مختلف اوقات میں جو حملے پیہم ہوتے رہے اور پھر بنگلہ دیش کے الگ وجود کو اس حقیقت کی نفی قرار دینے کی جو اُپچ لگائی گئی تھی ، اس کے بعد یہ مسئلہ مزید اہم ہو گیا ہے ۔آج کل اسلام اور سیکولرزم کی موجودہ کشمکش میں پھر یہ مسئلہ کھڑا کیا جارہا ہے ۔گذشتہ دنوں محدث کے ادارتی رکن جناب محمد عطاء اللہ صدیقی کے مخلوط انتخاب کے خلاف مکتوب بنام ارشاد احمد حقانی مطبوعہ روزنامہ ’جنگ‘ لاہور۲۶،۲۷،۲۸ فروری اور یکم مارچ ۲۰۰۲ء پر جناب ارشاد احمد حقانی نے تبصرہ کرتے ہوئے اس نقطہ نظر کو زیر بحث لا کر’ دو قومی نظریہ‘ کو ایک ’مستقل اسلامی تصور‘ کی بجائے ایک سیاسی موقف کے طور پر اجاگر کی کوشش کی ہے اور یہ بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ یہ کوئی پاکستان کی دائمی اساس نہیں ہے بلکہ حالات کے تحت اس پر نظر ثانی ہو سکتی ہے۔انہوں نے اس سلسلہ میں دیگر سیکولر دانش وروں کی طرح میثاقِ مدینہ میں ’ امت ِواحدة‘ کے لفظ کو بھی اپنی دلیل بنایا ہے ۔ جہاں تک اس دو قومی نظریہ کے سیاسی اور دینی ہونے کی بحث ہے ،میں اس پر فی الحال توکچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ میرے نزدیک مسلمانوں کی سیاست دین کا حصہ ہے اور سابقہ ادوار میں بنی اسرائیل کے انبیاء ہی سیاست دان بھی ہوا کرتے تھے جیسا کہ حدیث ِنبوی ہے : ’کانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء … الحدیث‘(بخاری:۳۴۵۵، مسلم:۴۷۵۰) ”بنی اسرائیل کی سیاست ان کے نبی کیا کرتے تھے۔“ لیکن میثاقِ مدینہ کے حوالے سے ’امت ِواحدہ‘ کے لفظ سے جو مغالطہٰ دے کر ملک میں مخلوط انتخابات کے جواز کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کی اصطلاح ’میثاقِ مدینہ‘ہمارے ہاں بڑی معروف ہو گئی ہے اور عام دانشور حضرات ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھے بغیر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ’میثاقِ مدینہ‘ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی خاص معاہدہ تھا جس کی تقریبا پچاس دفعات ہیں ۔حالانکہ ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”عہد ِنبوی میں نظامِ حکمرانی “ (صفحہ ۷۵ تا ۹۶) میں ’میثاقِ مدینہ‘ پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس موقف کی طرف اپنا رجحان ظاہر کیا ہے کہ ”میثاقِ مدینہ کوئی ایک خاص وقت کا معاہدہ نہیں تھا بلکہ انصار |