تعلیم وتعلّم محمد آصف احسان مسلم نوجوانوں کے لیے جدید علوم کی ضرورت و اہمیت اسلام دین فطرت ہے جو اپنے واضح احکام وفرامین کی کشش کے باعث قلب ِانسانی میں گھر کرتا ہے، فطرتِ بشری کی تجزیہ کاری اس کے متنوع علوم ومعارف کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی افادیت کی مظہر ہے۔ درحقیقت اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسان کو کائنات کے سربستہ اَسرار معلوم کرنے کی دعوت دیتاہے تاکہ اس کے ماننے والے محض نام کے مسلمان نہ کہلائیں بلکہ وہ اپنے قلب وذہن کی پوری آمادگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کے جملہ احکام پر ایما ن لانے والے ہوں ۔ اس کا بنیادی مقصد حقیقی اور باعمل مسلمان کے نمونے کی تیاری ہے جوکفار کے لئے اسلام کی دعوت کا ذریعہ ثابت ہو۔ علم کی اہمیت سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ۔ زمانہٴ قدیم سے دورِ حاضر تک کا ہر متمدن ومہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف ہے۔ فطرتِ بشری سے مطابقت کی بنا پر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے ابتدائی آثار ہمیں صدرِ اسلام یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں ملتے ہیں۔ چنانچہ غزوۂ بدر (رمضان ۲ھ) کے قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی۔ ان میں سے جو نادار تھے، وہ بلامعاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو کاتب وحی تھے، اسی طرح لکھنا سیکھا تھا۔ (سیرت النبی از شبلی نعمانی: ۱/۱۹۶) یہ معمولی واقعہ ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں تحصیل علم کس قدر ضروری تھا۔ اسلام بجا طور پر جملہ مباح علوم کی اور بالخصوص سائنس کی افادیت کو نہ صرف تسلیم کرتاہے بلکہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اس کی ترویج کو مقتضاے شریعت کی تکمیل تصور کرتا ہے۔ جو مذاہب انسان کو دنیا سے فرار کا درس دیتے ہیں ، اسلام ان کے برعکس سائنس اور دیگر جائز علوم کو نظامِ قدرت میں مداخلت قرار نہیں دیتا بلکہ ایک سچے اور کھرے مسلمان کے ساتھ ساتھ دنیا میں مروّجہ علوم کا ماہربھی اسے درکار ہے جو اسلام کے پیغا مِ حق کو جدید ذرائع کی وساطت سے غیر مسلمانوں تک پہنچاسکے۔ اسلام کی اس حقیقت پسندانہ سوچ کے باوجود عصر حاضر کا یہ عظیم المیہ ہے کہ مسلمانوں کا جس قدر علمی عروج اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر کئی صدیوں تک قائم رہا، اسی قدر وہ آج انحطاط وتنزل کا |