Maktaba Wahhabi

53 - 71
شکار ہیں ۔ صرف علم میں فقدان کے باعث ہم کئی اور شعبوں میں بھی مغرب کے غلام بن چکے ہیں ۔ معیشت ، معاشرت، ثقافت وسیاست اور دیگر کئی معاملات میں ہم اَغیار کے محتاج ہیں ۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے جس کا بدقسمتی سے ہمیں سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی راہنمائی کے لئے کی گئی تھی آج خود نشانِ منزل کھو چکا ہے اور سرابِ سفر کو مقصودِ حقیقی سمجھ کر اس پر قانع وشاکر ہے۔ اسی لئے ذلت ومسکنت کے گہرے بادل شش جہت سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے شاندار ماضی اور عبرتناک حال کو دیکھ کر مستقبل کو درخشان کرنے کی بہترمنصوبہ بندی کریں ۔ جدید سائنسی ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ اس دور میں جب پورا یورپ جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا، مدارسِ اسلامیہ بالخصوص غرناطہ، طلیطلہ اور بغداد میں علم کی قندیلیں روشن تھیں ۔ یورپ کے بیشتر جویانِ علم مسلمان اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرکے اپنی علمی تشنگی دور کرتے تھے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کی موجودہ تہذیب وترقی مسلمانوں کے سائنسی ارتقا کی رہین منت ہے۔ اسلامی علوم وفنون نے کچھ تو ہنگری اور بلقانی ریاستوں کے ذریعے اور زیادہ تر اندلس وصقلیہ (سپین اور سسلی) کے رستے یورپ میں نفوذ کیا۔ خلافت ِاندلس میں پوری علمی آزادی تھی۔ طلیطلہ اور قرطبہ کے مضافات میں بے شمار خانقاہیں تھیں جو مسافروں کے لئے اقامت گاہوں کا کام دیتی تھیں ۔ یورپ کے تمام ممالک سے طالبانِ علم عربوں کے علمی مراکز کا رخ کرتے تھے اور وہاں آکر مسلمانوں کی علمی فیاضی سے مستفید ہوتے تھے۔ صقلیہ میں فریڈرک دوم اور اس کے جانشینوں نے مختلف علوم وفنون (فلسفہ، سائنس اور طب) کی کتابیں لاطینی میں بکثرت ترجمہ کروائیں ۔ یورپ میں اندلس کے اسلامی علوم وفنون کی اشاعت بھی فریڈرک کے واسطے سے اٹلی (اطالیہ) اور سسلی (صقلیہ) کی راہ سے ہوئی اور فلسفہ وطب کے علاوہ دیگر علوم کی کتب بھی لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں ۔ ان کتابوں کے بیشتر مترجم یہودی علما تھے۔ جنہوں نے یورپ کے ثقافتی ارتقا میں بھر پور حصہ لیا اور اسلامی ثقافت کویورپ کے دوردراز اور نیم مہذب علاقوں تک پہنچایا۔ عربی کتابوں کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ کے لئے سرچشمہ رحمت ثابت ہوئے۔ فرانسیسی اور جرمن راہبوں نے علوم کی درسی کتب یہودی فضلا سے پڑھیں ۔ ولیم آف نارمنڈی کے ساتھ بے شمار یہودی فضلا انگلستان آئے، جہاں آکسفورڈ میں ان کے ہاتھوں پہلا مدرسہ قائم ہوا۔ اسی سکول میں راجر بیکن (Roger Bacon) نے عربی زبان اور دیگر علومِ حکمیہ حاصل کئے۔ کہاجاتا ہے کہ مغرب میں تجربی علوم کا سہرا راجر بیکن کے سر ہے۔ مسیحی یورپ نے مسلمانوں کے علوم راجر بیکن سے سیکھے جس نے خود آکسفورڈ کے علاوہ پیرس میں قیام کرکے مسلمانوں کے علوم سیکھے تھے۔ وہ برملا یہ اعتراف کرتا تھا کہ
Flag Counter