اسلام اور مغرب ڈاکٹر خالد ظفر اللہ ( غیر مُسلم اقوام سے مشابہت؟ امریکہ کی موجودہ جنگ طالبان کی بجائے اسلام سے جنگ ہے، بعض اہل دانش اسے تہذیبوں کی جنگ بھی قرار دے رہے ہیں ، جیسا کہ صدر بش نے ۱۱/ستمبر کے حملوں کو امریکی تہذیب کے خلاف حملہ قرار دیا۔اسلام اپنی تہذیب میں کیا خصوصیات رکھتا ہے اور غیر مسلم تہذیبوں کے بارے میں اس کا رویہ کیا ہے ؟ زیر نظر مضمون اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ محدث، جولائی ۲۰۰۱ء کا شمارہ بھی اسلام اور مغرب کی اسی تہذیبی کشمکش سے مخصوص تھا، جس کا مطالعہ بھی اس سلسلے میں مفید ہوگا۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اسی موضوع پر وقیع بحث کی گئی ہے۔ (حسن مدنی) اسلامی تہذیب کے تقاضے دورِ حاضر تہذیبی تصادم (Clash of Civilizations)کا دور کہلاتا ہے۔ سات براعظموں پر پھیلا ہوا کرۂ ارضی سائنسی ایجادات اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے سمٹ کر گلوبل ولیج بن چکا ہے۔ اس بڑے گاؤں پر مغربی ثقافتی یلغار سیل رواں کی طرح چھائی جارہی ہے اور غالب یورپی اقوام عسکری چڑھائی اور ایک بالشت کی بھی دیوار پھاندے بغیر بیڈرومز تک تہذیبی غلبہ پاچکی ہیں ۔ سونیا گاندھی بھی طعنے دے رہی ہے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔ عصر حاضر کی اس ثقافتی جنگ (Culture War) میں بحیثیت ِمسلم قوم ہمارے تین طرح کے رویے سامنے آتے ہیں ۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جو مغربی ثقافت کی برتری تسلیم کرکے اس سے مرعوبیت کا شکار ہیں ، بے شمار خرابیوں کے باوجو د اب وہ دنیاوی ترقی کو اسی سے مشروط سمجھتے ہیں ۔چنانچہ اپنے وجود ، طور اطوار اور قول وعمل سے اسی کی نمائندگی کررہے ہیں ۔یہ ترقی پسند اور تجدد پسند گروہ ہے۔ دوسرے گروہ کا رویہ قدامت پسندانہ ہے۔ انہوں نے مغرب کے تہذیبی مظاہر کی مخالفت کو اپنا رکھا ہے اور وہ اپنے بودوباش ، روزمرہ لباس اوربول چال کے طور طریقوں میں بھی باہتمام پرانے طریقوں کو سختی سے پکڑے نظر آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ بعض ایسی باتیں جو اسلامی تہذیب کا حصہ تو نہ تھیں لیکن ماضی میں دین دار طبقے کی عکاسی کرتی تھیں مثلاً کالر والا قمیص نہ پہننا، وہ اس کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا تیسرا گروہ توازن واعتدال کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ وہ باتیں جو شرعاً معیوب نہیں ، اور ان کو اپنانا جائز ہے، یہ لوگ ان کی پابندی پر اصرار نہیں کرتے۔ الکلمة الحکمة ضالة المؤمن کی |