علاوہ ازیں مٹی میں دوسری چیز کو پاک کرنے (مُطَهِّر) کی صلاحیت بھی ہے مگر چھت بنانے کی صورت میں یہ مقاصد پورے نہیں ہوتے بلکہ اس سے مزید قباحتیں جنم لیں گی مثلاً: ۱) اگر چھت پر پختہ قبریں بنا کر تعفن وغیرہ کو دبانے کی کوشش کی جائیتوپختہ قبریں بنانے کی ضرورت پیش آئے گی جبکہ پختہ قبروں کی حرمت بالکل واضح ہے اور کسی فقہی مذہب نے بھی اس کی ممانعت میں اختلاف نہیں کیا۔ ۲) اگر چھت پر منوں مٹی ڈالی جائے گی تو اس کے لئے انتہائی مضبوط میڑیل استعمال کرنے کے لئے کروڑوں اربوں کی لاگت برداشت کرنا پڑے گی جو ہر جگہ ممکن نہیں ۔ ۳) مٹی ڈال کر مردے دفنانے کی صورت میں ان کا تعفن اور بدبو کے بھبھوکے پیدا ہوں گے اور اس صورت میں زائرین وہاں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ اگر اس تعفن کو دبانے کے لئے زہریلے کیمیکلز استعمال کئے جائیں گے اور مردے کی ہڈیاں وغیرہ گلانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ بھی ممنوع ہے کیونکہ مردے کے جسم، ہڈیوں وغیرہ کی تعظیم بہرحال ضروری ہے۔ ۴) ملٹی سٹوری قبرستان کی تعمیر کے جواز کی صورت میں سب سے بڑی قباحت یہ پیدا ہوگی کہ گویا ہر قبرستان میں ساٹھ فیصد پختہ قبریں اور مزارات کو درست تسلیم کرلیا گیا ہے۔ تبھی تو ان کی خبر لینے اور انہیں اسلامی نقطہ نظر کے مطابق کچی قبروں میں تبدیل کرنے کی بجائے نئے اُفق کھولے جارہے ہیں۔ کیونکہ کچی قبروں کی صورت میں بالعموم قبرستان کی تنگی کے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ ۵) بارش وغیرہ کی صورت میں محدود مٹی پانی میں گھل جانے سے لاشوں کے اعضا بکھریں گے اور قبروں کی بے حرمتی ہوگی۔ ۶) زلزلے وغیرہ کی صورت میں ایسی عمارت کا گرنا خطرے سے خالی نہیں بلکہ جتنی سخت اور مضبوط عمارت ہو، اتنی ہی جلدی وہ زلزلے کی نذر ہوتی ہے، اسی لئے زلزلے والے علاقوں میں لچک دار عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں لیکن اگر قبرستان کی عمارت ویسی لچک دار ہوگی تو اس سے مطلوبہ مقاصد پورے نہ ہوں گے اور عمارت گرنے کی صورت میں لاشوں کی بے حرمتی کا کون ذمہ دار ہوگا؟جبکہ شریعت میں تمام صورتوں کا آسان اورسادہ حل موجود ہے۔ ۴۔ مذکورہ مسئلہ بہرصورت شک و شبہ سے بالا نہیں لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ دع ما يريبک الی ما لا يريبک (شک والی چیز چھوڑ کر غیر مشکوک کو اختیار کرو) پرعمل کرتے ہوئے، فقد استبرأ لدينه وعرضه (جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا) کی نبوی بشارت حاصل کی جائے۔ (هذا ما عندی واللَّه أعلم بالصواب) |