حکیمانہ روش اور خذ ما صفا ودع ما کدر کی موٴمنانہ فراست کے ساتھ باعث خیر کو قبول کرنااور باعث ِشر کو ردّ کرنا ان کا طریقہ ہے۔ یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا مسلمان ایک بہروپیا کا کردار اپنانے والا ہوتا ہے کہ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لے اور تہذیب ِاغیار کا نمائندہ بن جانا گوارا کرلے۔کیا اسلامی تہذیب پرکاربند رہنا اس کے لئے لازم نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی مسلمان صرف اپنی تہذیب کا علمبردار ہوتا ہے، بہروپیا نہیں کہ تہذیب ِاغیار کو وردِ زبان اور حرزِ جان بنا لے، لیکن ثقافتی جنگ میں باعث خیر کو بھی ردّ کرتے چلے جانا کیا اسلامی سوچ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ باعث ِخیر کو ردّ کرنا اسلامی طرزِ فکر نہیں بلکہ مشرکین مکہ کا وطیرہ ہے۔ وہ کہتے تھے اے اللہ! اگر یہ حق تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کا مینہ برسا یا ہم پر دردناک عذاب لے آ۔[1] مسلمانوں کے اس قسم کے رویوں کے بالمقابل اگر ہم پیغمبر انقلاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی سیرت کا مطالعہ کریں کہ آپ نے مشرکین مکہ، جزیرة العرب کے اہل کتاب اور مجوسِ عجم کے تہذیبی طور اطوار کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ تو اس سے ایک متوازن راہ عمل اپنائی جا سکتی ہے۔ محمد بن حبیب (۲۴۵ھ) کی کتاب المُحَبّر[2]جیسی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تہذیب ِاغیار کے بارے میں آپ کے رویے کا خلاصہ یوں سامنے آتا ہے ۱۔ باطل اور شر کی نمائندہ روایات کو تمام تر مخالفت کرتے ہوئے ردّ کرنا۔ ۲۔ خیر و شر کی جامع ثقافتی رسومات کو ردّوبدل کے بعد اپنانا۔ ۳۔ عمدہ اخلاقی و تمدنی عادات کو بعینہ قبول کرلینا۔ ۴۔ کلیتاً نئی تہذیبی تعلیمات سامنے لانا۔ سیرتِ نبوی کا تہذیبی کشمکش کے حوالے سے جائزہ لینے سے پہلے تہذیب و تمدن یا ثقافت و کلچر کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ یہ چاروں لفظ معمولی اصطلاحی فرق کے باوجود باہم مترادف معنوں میں مستعمل ہیں ۔ ان کے مفہوم میں کسی قوم کے عقائد و نظریات کی بنیاد پراختیار کردہ مذہبی، اخلاقی، سماجی رویے اور معاشرتی، معاشی و سیاسی طرزِ زندگی شامل ہے۔ سماجی علوم کے نامور ماہرین کی تعریفوں میں الفاظ کا معمولی فرق تو پایا جاتاہے لیکن تہذیب و تمدن یاثقافت و کلچر کی مشترک روح سب کے ہاں یہی ہے کہ افکار و نظریات اور ان کی بنیاد پر اختیار کردہ انسانی زندگی (بالفاظِ دیگر عقیدہ و عمل کے مجموعے) کا نام تہذیب و تمدن ہے۔ نامور مسلم تاریخ دان اور ماہر عمرانیات ابن خلدون (۸۰۸ھ/۱۴۰۶ء) کے ہاں لفظ |