Maktaba Wahhabi

33 - 71
حضارة اسی مفہوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ [1] یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ تہذیب و تمدن میں اصل بنیاد عقائد ونظریات ہیں اور انداز بود وباش، طرزِ معاشرت، طرزِ معیشت، طرزِ سیاست، علوم و فنون، عبادات و معاملات یہ سب ظاہری رویے ہیں ، اس بات کو دہرانا بھی مفید ہوگا کہ ہر آدمی اپنے اپنائے ہوئے نظریہٴ حیات کی بنیاد پر خطوطِ زندگی استوار کرتا ہے۔کسی فرد یا قوم پر تہذیبی غلبہ پانے کے لئے ’غزوِ فکری‘ کی مدد سے اس کے نظریات کی بنیادیں متزلزل کرنا شرطِ اوّلین ہے۔ اب ہم تہذیبی کشمکش کے حوالے سے سیرتِ نبوی کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود تصادم کا آغاز کرتے نظر آتے ہیں ۔ جب آپ نے یہ نعرہ لگایا ’لااله الا اللَّه…‘ جس نے ان کے عقائد اور نظام کی نفی کی، ان کے رسم و رواج اور رذائل اخلاق کی نفی کی، ان کے معاشرتی نظام اور اس میں پائی جانے والی اونچ نیچ کی نفی کی، نسل پرستی وآبا پرستی کی نفی کی، ہوائے نفس کی نفی کردی، گویاآپ نے تہذیب و تمدن کے جملہ رویوں اور مظاہر کی نفی کرکے تہذیبی ٹکراؤ کا آغاز کردیا۔ آپ نے مشرکین عرب اور اہل کتاب کے عقائد کو بیت ِعنکبوت ٹھہرایا۔ ان پر واضح کیا کہ یہ صنم، پتھر کی خراش تراش کے باوجود پتھر ہی رہتا ہے، نفع و نقصان کا مالک نہیں بن جاتا۔ یہ بے چارا تو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی سے کچھ واپس نہیں لے سکتا۔[2]اسی طرح اہل کتاب کے انبیاء اللہ کو ابن اللہ قرار دینے کے غیر معقول عقیدے کی گرہ کشائی کی۔[3]چنانچہ مظلوم بدنام مصلح محمد بن عبدالوہاب (۱۲۰۶ھ/۱۷۹۲ء)نے اپنی کتاب میں ایک سو جاہلانہ نظریاتی مسائل پر اسلامی تنقید کو جمع کردیا ہے۔[4] پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ۱۳/ سالہ مکی دور میں ان کی تہذیبی بنیادیں منہدم کیں اور اپنی نظریاتی بنیادیں مضبوط کیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکی دورِ رسالت درحقیقت اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط کرنے اور بالمقابل تہذیبوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا دور ہے۔ ا س کے بعد مدنی دور اسلامی تمدن و ثقافت کو پروان چڑھانے کا دور ہے۔ اس میں آپ نے اپنے ارد گرد موجود اَقوام کے تہذیبی رویوں کی زیادہ تر مخالفت کی کیونکہ وہ تمدن برائی کے علمبردار بن چکے تھے۔ یہ مخالفت اس قدر شدید تھی کہ بالآخر آپ کے بارے میں یہود چلا اُٹھے کہ ما يريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلاخالفنا فيه[5] ”اس شخص نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ ہر بات میں ہماری مخالفت کرے گا “ آپ کا رویہ بھی اس بارے میں کچھ یوں تھا
Flag Counter