اصابت ِرائے کے حامل اور علم وعمل میں یگانۂ روزگار تھے ۔مرحوم فقرا اور مساکین سے شفقت سے پیش آتے ،فقہی اور شرعی علوم پر مشتمل کتب کے مطالعہ کے بہت شائق تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی وسیع رحمت سے ڈھانپے اور ان کے اہل وعیال کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مسلمانوں کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔‘‘ افراط وتفریط کے درمیان راہِ اعتدال کے حامل شیخ عبد العزیز بن صالح الحمید(چیف جسٹس صوبہ قصیم)نے شیخ کی وفات کو ملت ِاسلامیہ کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے فرمایا : ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ کی وفات ملت ِاسلامیہ کے لیے ایک بڑا خسارہ اور عظیم حادثہ ہے۔ علم اور طلبا سے محبت اور کتاب اللہ سے شغف آپ کا امتیازی وصف تھا ۔آپ افراط وتفریط کے درمیان مسلک ِاعتدال کے حامل تھے۔آپ نے اپنے والد ِگرامی الشیخ محمد السبیل جو خود بہت بڑے عالم اور ۴۰ سال تک مسجد ِنبوی میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے، ان سے بہت زیادہ استفادہ کیا۔ ہم ان کے خاندان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اللہ ان پر رحم فرمائے ۔انہیں وسیع باغوں میں جگہ دے اور ان کے اہل خانہ اور دوست واحباب کو صبر جمیل عطا فر مائے۔‘‘ علم کی نشانی ڈاکٹر محمد الخریم نے شیخ کی وفات پر گہرے غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ’’ آج ہم مسلمانوں کی ایک عظیم نشانی اور مسجد ِحرام کے امام سے محروم ہو گئے ہیں۔‘‘ قحط الرجال کے جس دور سے آج ہم گزر رہے ہیں، شیخ جیسی نابغہ روزگار ہستی ملت ِاسلامیہ کے لیے بہت بڑا سہارا تھی۔ وہ تواپنا کام پورا کر کے چلے گئے ،اب ملت کے ذہین وفطین لوگوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان جیسی قد آورشخصیات کے خلا کو پر کریں۔ اور ضرورت ہے کہ موجودہ او ر آئندہ نسلیں ان علما کے خلوص ،تقویٰ، للہیت، محنت ومشقت اور علم وکردار کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔اور ملت کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں ۔ [ عربی ہفت روزہ ’ الدعوۃ ‘ ریاض ، عدد 1843] |