اخلاق کا مجسمہ ،انتہائی مشفق،خیر سے محبت کرنے والے اور اس کا پرچار کرنے والے تھے ۔آپ کتاب اللہ کے حافظ، عالم اور اس کے احکام پر سختی سے کاربند تھے۔‘‘ خیروبرکت کی علامت آپ کی وفات پر مسجد ِحرام کے رئیس الموذّنین شیخ علی ملا نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’الشیخ ڈاکٹر عمر السبیل کی وفات ہمارے لیے ایک عظیم حادثہ سے کم نہیں۔مرحوم ضبط ِنفس اور تواضع وامانت ودیانت کے پیکر اور خیروبرکت کی علامت تھے ، دعوت وتبلیغ میں حسن خلق آپ کا نمایاں وصف تھا،علومِ دینیہ کے معلم اور طلباءِعلم سے محبت کرنے والے تھے۔ آپ اپنے والد فضیلۃ الشیخ محمد السبیل (بیت اللہ کے امام اور خطیب ) کے ساتھ معہد ِحرمِ شریف میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اور طلبا کی ایک بڑی تعداد ان کے علم سے مستفید ہوئی۔اس کے بعد آپ جامعہ اُمّ القری کے کلیۃ الشریعۃ میں مسند ِتدریس پر متمکن ہوئے۔‘‘ دعوت و تبلیغ کا منفرد اُسلوب شیخ عمر السبیل اپنے دل میں اُمت کے لئے درد اور خیرخواہی کا جذبہ رکھنے والے ایک عظیم مبلغ تھے اور وہ تمام صفات آپ میں بدرجہ اتم موجودتھیں جو ایک داعی کا طرۂ امتیاز ہوتی ہیں ۔چنانچہ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر محمد الخریم نائب چیئرمین ’ادارۃ شو ٔونِ حرمین‘ نے آپ کی وفات پر گہرے رنج واَلم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ’’آج ہم ملت اسلامیہ کے ایسے فرزند ِارجمند سے محروم ہو گئے جو ا للہ کی اطاعت اور بیت اللہ کے جوار میں پروان چڑھے اور پھر بیت اللہ الحرام کی مسند ِامامت وخطابت پر متمکن ہوئے ۔آپ عفو ودرگزر اور شفقت و محبت میں اپنی مثال آپ تھے۔ دعوت الی اللہ میں ﴿ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾کی عمدہ تصویر تھے۔ ہم ان کے خاندان اور والد ِگرامی الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیل کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔‘‘ شیخ کی اصابت ِرائے شیخ کی صفات میں ایک خوبی ان کی ’اصابت ِرائے‘ تھی ۔ چنانچہ الشیخ علی بن مدیش (سابق رکن مجلس شوریٰ )نے آپ کی وفات پر ان جذبات کا اظہار کیا۔ ’’خطیب وامامِ حرم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عمر بن محمد السبیل رحمۃ اللہ علیہ اصحابِ فضل مشائخ میں سے تھے۔ آپ |