Maktaba Wahhabi

60 - 71
رکھ سکتے تو کم از کم اس کی اصلاح کی بقدرِ استطاعت جدوجہد کی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کے اہل فکر و نظر طبقہ پر لازم ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی تعلیم حاصل کر کے اس میں موجود شرعی و اخلاقی قباحتوں اور برائیوں کو فی الفور ختم کرے۔ شاید یہ عمل ہی ملت ِاسلامیہ کے نوجوانوں کو اس گہرے کنویں میں گرنے سے بچا لے جس کی تہ میں سوائے مہلک کانٹوں اور زہریلے بچھوؤں کے اور کچھ نہیں ۔ اعاذنا اللَّه من هذه الخرافات! ہم نے اللہ کی نصرت و تائید سے علومِ دنیوی میں مسلمانوں کے وافرعمل دخل کا کچھ ذکر کیا ہے، جس سے اس حقیقت کا اِدراک آسان ہو جاتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کا موجودہ سائنسی ترقی میں تحقیقی و تنقیدی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے اور عصر حاضر کی بیشتر ترقی ان کی سائنسی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی موجودہ علمی اور سائنسی کیفیت کا بھی اجمال سے مگر بغور جائزہ لیا جائے، تاکہ تشنگی باقی نہ رہے۔ دورِ حاضر میں عالم اسلام کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت خاصی مایوس کن ہے، جس کا اندازہ ذیل میں دئیے گئے اَعداد و شمار سے لگایاجاسکتا ہے۔ ۵۶ آزاد اور خودمختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد (تقریباً سوا ارب) ہے۔ اس آبادی کا تقریباً چالیس فیصد حصہ اَن پڑھ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً ۳۵۰ ہے، جن میں پنجاب یونیورسٹی (لاہور ۱۸۸۲ء) انڈونیشیا یونیورسٹی (جکارتہ ۱۹۵۰ء) ، تہران یونیورسٹی (دانش گاہ، تہران ۱۸۵۱ء) جامعہ ملک سعود (ریاض ۲۱ ربیع الآخر ۱۳۷۷ھ/۱۴ نومبر ۱۹۵۷ء) اور جامعة الازہر (قاہرہ، مصر ۹۷۰ء) وغیرہ شامل ہیں ۔ ان یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریباً ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ان اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰ لاکھ کے قریب ہے، جوان شعبوں میں مصروفِ عمل عالمی آبادی کا تقریباً چار فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں ، جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہیں کر سکی۔ یہ ان اسلامی ممالک کا مجموعی حال ہے، جن کی آزاد مملکتیں کرۂ ارض کے تقریباً تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط ہیں ، جو تیل کے پوری دنیا میں موجودہ ذخائر کے تین چوتھائی حصے کے مالک ہیں اور جنہیں اپنے لامحدود و بے شمار قدرتی وسائل سے استفادہ کی سہولت حاصل ہے۔ اس کے باوجود علومِ جدیدہ میں مغرب سے مسابقت کے بجائے غفلت اور تساہل نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عوام الناس کے خیال میں عصری علوم کی تحصیل محض مادّیت کی پرورش و نمو کا سبب ہے اور اس سے مفید امور کی انجام دہی ممکن نہیں ۔ جب کہ ایسا نہیں ، اسلام نے ان علوم کی درس و تدریس سے منع کیا ہے، جو کسی بھی پہلو سے اسلام کے لیے مضر اور نقصان دہ ثابت ہوں ۔ جب کہ جو علوم نوعِ بشری کو
Flag Counter