Maktaba Wahhabi

58 - 71
جزوِلاینفک ہے۔ ۲۔ انگریزی زبان کی تعلیم غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لیے اور ان کو اسلامی نظریات و افکار سے روشناس کرانے کے لیے انگریزی بنیادی اہمیت رکھتی ہے جو صرف انگریزوں کی زبان ہونے کے باوجود دنیاکے قریباً تمام ممالک میں بولی، پڑھی، لکھی اور سمجھی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کی نشرو اشاعت میں ان تمام زبانوں سے کام لینا چاہیے جو عوام الناس میں رائج ہیں۔ (الدعوة الی اللہ واخلاق الدعاة: ص ۲۵) ۳۔ کمپیوٹر کی تعلیم اسلام میں اکثر اشیا اپنے عمومی استعمال کی بنا پر جائز ہیں ۔ مثلاً چاقو عام طور پر مختلف اشیا یعنی پھل اور سبزی وغیرہ کاٹنے کے لیے مستعمل ہے جو کہ جائز ہے۔ لیکن اسی سے جب کسی انسان کو موت کے گھاٹ اتارا جائے تو اس وقت یہ ایک قبیح و مکروہ اوزار اور آلہ قتل متصور ہوگا۔ ایسے ہی کمپیوٹر (Computer) کا استعمال ہے جس سے عام طور پر تجارت وغیرہ ایسے مباح اُمور کے لیے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان سب کے باوجود قطعی فیصلہ عموم کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ اکثریت جس کام کو کرے، مشاہدات و نتائج اسی سے مرتب کیے جاتے ہیں چنانچہ اس بات میں ذرا بھی جھوٹ نہیں کہ نوے فی صد سے زیادہ لوگ کمپیوٹر میں انٹرنیٹ کے ان پروگراموں کو استعمال کرتے ہیں جو ہمہ وقت عریانی و فحاشی کے مہلک زہر کو نوجوان نسل کی شریانوں میں اُتار رہے ہیں اور اگر مبالغے پر محمول نہ کیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کاروبار وغیرہ کا تو جھانسا ہے ورنہ انٹرنیٹ (Internet) کی ایجاد اسی مقصد کیلئے ہوئی ہے کہ اس قوم کی اخلاقیات کے قلعے مسمار کر دئیے جائیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ علم جہاں کامرانی، اقتدار، قیادت اور تہذیبی سربلندی کا ذریعہ ہے وہاں تہذیب ِاخلاق کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ بقولِ شاعر علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ ! بدقسمتی سے مغرب میں مدتِ دراز سے علم کے ارتقا کا تعلق انسانی بہبود و فلاح اور اخلاقی استحکام کے ساتھ برقرار نہیں رہ سکا۔ اس نے انسان کے اخلاقی وجود کو نظرانداز کر کے علم کو محض مال وزر ، طاقت کے حصول ا ور آسانیوں کی فراہمی کا وسیلہ بنا لیاہے۔ چنانچہ معاشرے کی فلاح وبہبود کا محض مادّی پہلو پیش نظر رہ گیا ہے اور حقیقی انسانیت سے ماورا اخلاقی پستیوں کے خوگر مصنوعی معاشرے وجود میں آ گئے ہیں ۔
Flag Counter