سطورِ بالا میں مسلمانوں کے گزشتہ علمی عروج اور عیسائیت کا علم سے تصادم نیز یورپ کے علمی انحطاط کا احوال مختصراً بیان کیاگیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی موجودہ کیفیات کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں اور ان اسباب و علل پر تفکر و تدبر کر سکتے ہیں جو ہمارے موجودہ انہیار و زوال کا باعث بنے۔ عالم اسلام کے نامور ادیب وداعی مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۱/ دسمبر ۱۹۹۹ء) رقمطراز ہیں : ”عالم اسلام کے لیے ضروری ہے کہ علم کی اس طرح تنظیم جدید کرے جواس کی روح اور اس کے پیغام سے مطابقت رکھتی ہو۔ عالم اسلام نے قدیم دنیا پر اپنی علمی سیادت کا سکہ جما دیا تھا اور دنیا کی عقلیت و ثقافت کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گیا تھا۔ اس نے دنیا کے ادب اور فلسفہ کے جگر میں نشیمن بنایا تھا، صدیوں متمدن دنیا اس کی عقل سے سوچتی رہی، اس کے قلم سے لکھتی رہی اور اسی کی زبان میں تصنیف و تالیف کرتی رہی، چنانچہ ایران، ترکستان، افغانستان اور ہندوستان کے مصنّفین اور اہل علم اگر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے تو عربی ہی میں لکھتے تھے۔ اگرچہ یہ علمی تحریک جو عہد ِعباسی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی، یونان اور عجم سے متاثر تھی ، اور اسلامی سپرٹ اور اسلامی فکر کی بنیاد پر قائم نہیں تھی اور اس میں علمی و دینی حیثیت سے متعدد خامیاں اور کمزوریاں تھیں ، لیکن اپنی قوت و تازگی کی وجہ سے وہ پوری دنیا پر آندھی اور سیلاب کی طرح چھا گئی اور قدیم علمی نظام اس کے سامنے ٹھٹھر کر رہ گئے۔ اگر عالم اسلامی کی خواہش ہے کہ نئے سرے سے وہ اپنی زندگی شروع کرے اور غیروں کی غلامی سے آزاد ہو، اگر وہ عالمگیر قیادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف تعلیمی خودمختاری ہی نہیں بلکہ علمی لیڈر شپ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ، یہ مسئلہ بہت گہرے غور و فکر کا محتاج ہے اس کی ضرورت ہے کہ وسیع پیمانہ پر تصنیف و تالیف اور علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کیا جائے، اس کام کے سربراہ عصری علوم سے اتنی واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں جو تحقیق و تنقید کے درجہ تک پہنچتی ہو، اور اس کے ساتھ اسلام کے اصل سرچشموں سے پورے طور پر سیراب اور اسلامی روح سے ان کا قلب و نظر معمور ہو۔“ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر: ص ۳۵۱ تا۳۵۳ از سید ابوالحسن علی ندوی) سطورِ ذیل میں ہم ان اہم شعبوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جن میں مسلمانوں کوید ِطولیٰ حاصل ہونا چاہیے: ۱۔ سائنس کی تعلیم ہمیں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے جملہ وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ان میں جدت کی تخلیق اور خود کفالت کی تحصیل کے لیے کیمیا (Chemistry)،طبیعات (Physics) ، حیاتیات (Biology) ،ریاضی (Mathematics) اور دیگر عصری علوم میں مہارت و ممارست کی ضرورت ہے، انہی علوم میں دفاعی اور حربی مقاصد کے لیے ایٹمی قوت بھی شامل ہے جو کہ اسلام کا |