Maktaba Wahhabi

42 - 71
پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا ہوجائے: ﴿هُوَالَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَهِ بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلٰی الدِّيْنِ کُلِّهِ﴾[1] ”وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کربھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔“ اور یہاں سرتاپا استعماری ذہنیت کارفرما ہے۔ وہاں پہلے ’غزوِفکری‘پھر اعلیٰ تہذیبی روایات کے مظہر معاشرے کا قیام اور آخرمیں اس کے علانیہ مخالفین سے مسلح ٹکراؤ (Armed Confilict) تھا۔یہاں پر صرف سپر پاورکہلانے کا شوق ہے لیکن اس شوق کی تکمیل کے لئے اعلیٰ فکری تعلیمات اور بے مثال تمدنی روایات کی تہذیبی تائید موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں موجودہ مرعوبانہ ذہنیت سے چھٹکارا پانا ہوگا، جس میں یورپ سے آمدہ ہر روایت سونے کی طرح چمکدار نظر آتی ہے، حالانکہ”ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی!“ اسی طرح وہاں سے آمدہ ہر روایت کو ردّ کرنے کا رویہ اپنانے کی بجائے آپ کی سنت کے مطابق ایمان و عمل کے لئے غیر مضر کو قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہئے۔ آج ہمیں اپنے آپ کو توازن واعتدال کی راہ پرگامزن ہو کر اس ثقافتی یلغار کا بغور جائزہ لینا ہوگا اور ہر روایت کو خذ ما صفا ودع ما کدر کی چھلنی سے گذار کر جرأت مندانہ پالیسی اپنانا ہوگی۔جیسا کہ آپ نے غیلة (حاملہ کا دودھ پلانا)کے بارے میں روم وفارس کے رویے کو قبول کرلیا۔[2] نکاح کے بارے میں عرب روایات میں سے شرف ِانسانی کے لائق روایات کو قبول کیا اور باعث ِعار کو ردّ کردیا۔[3]زنا کی لعنتی رسم اور اس سے پیدا شدہ بچے پردعویٰ کی رسم جاہلیت کے خاتمے کا اعلان فرمایا: ذهب أمر الجاهلية…الخ اور زانی کے لئے رجم کی سزا مقرر فرمائی۔ [4] آج بھی آپ جیسی مدبرانہ فراست کی ضرورت ہے۔ اپنی ثقافتی بنیادوں پر تعصب کی حد تک ایمان پختہ کرنا ہوگا۔ آج کھوکھلی مغربی ثقافت کی ظاہری چمک دمک کے سامنے ذ ہنی مرعوبیت کا شکار ہونے کی بجائے اس کی تباہ کاریوں کو طشت از بام کرنے کی ضرورت ہے۔انسانیت کے لئے انتہائی مہلک رویوں کی علمبردار ہونے کی بنا پر اس مغربی ثقافت سے نفرت کی روش اختیار کرنی چاہئے۔نیز اسلامی تہذیبی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے احساسِ ندامت و شرمندگی کی بجائے اس نمائندگی کو باعث ِعزو شرف گرداننا چاہئے کہ ہمیں انسانیت کے لئے اعلیٰ و اکمل تہذیب کے امین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آج کی فکری درماندگی اور تہذیبی طور پر درندگی کا شکار انسانیت اعلیٰ علمی، فکری و ثقافتی قدروں کی متلاشی ہے۔ سیاسی و ثقافتی استعمار کی یہ خواہش ہے کہ ہر طرح سے ا س کا ہی بول بالا ہو یا کم از کم دو متضاد فکری نظام یعنی حق و باطل پہلو بہ پہلو چلتے رہیں تاکہ اس باطل کے وجود اور بقا کی ضمانت (Lease of
Flag Counter