تہذیب پسند نہیں جبکہ سیرت النبی کی تعلیمات اس کے برعکس ہے۔ آپ اپنے ہر خطبے میں فرمایا کرتے تھے: خير الهدی هدی محمد صلی اللَّہ علیہ وسلم[1]یعنی ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تہذیبی رویہ ہی سب سے بہتر تہذیبی رویہ ہے۔‘‘اس تہذیب کے دامن پر کوئی سیاہ دھبہ نہیں ہے؛ بلکہ ليلها کنهارهاکہ اس کی توراتیں بھی دن جیسی روشن ہیں اور اس تہذیب کا معاشرتی و سماجی رویہ اپنے اندر بڑی کشادگی رکھتا ہے۔ ایک دفعہ عید کے موقع پر حبشی اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ليعلم اليهود أن فی ديننا فسحة[2] ”یہودیوں کو خبر ہونی چاہئے کہ ہمارا دین یعنی ہماری ثقافت بڑی وسعت رکھتی ہے۔“ اس روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلامی تہذیب تنگ نظر یا گھٹن والے رویے کی آئینہ دار نہیں ہے البتہ نام نہاد آزادی کے نام پر آوارگی پھیلانے والے، انسانیت کے لئے تباہ کن تہذیبی رویوں کی ضرور مخالف ہے۔ آج ہمیں مغرب کی بڑھتی ہوئی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اپنے کردار اوررویے کا سیرت النبی کی روشنی میں جائزہ لینا چاہئے۔ ان کے ’تھنک ٹینک‘ انہیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ عسکری چڑھائی کے ذریعے کوئی ملک فتح کرنا مشکل ہے اور اس پر قبضہ رکھنا دنیا بھر سے بدنامی کاباعث ہے۔ اس کی بجائے تہذیبی تصادم کی راہ اپناتے ہوئے تہذیبی غلبہ پائیں اور پھر تہذیبی لوازمات فروخت کرکے خوب دولت کمائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمان علمی دنیا میں یتیم، سیاسی طور پر غیر مستحکم اورمالی طور پر بدحال ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہاورڈیونیورسٹی کے مشہور سکالر پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹنThe Clash of Civilizations جیسے معروفِ زمانہ مقالے لکھ کر اہل یورپ کو تہذیب ِاسلامی سے تصادم کی راہ دکھا رہے ہیں اور مغرب نے موجودہ عالمی غلبہ کے زعم میں اپنی ثقافت کے پرچار میں سب کچھ روا سمجھ رکھا ہے۔[3] حالانکہ یہ کلچر انسانیت کے لئے تباہی کا پیغام لا رہا ہے۔ خود ان کے ہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ خاندانی نظام بالکل نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ عزت و آبرو اور غیرت و حمیت نامی الفاظ ان کی ڈکشنریوں سے غائب ہونے کو ہیں ۔ منافقت اور خود غرضی کو چالاکی اور دانش مندی سمجھا جاتاہے۔ دورُخی زندگی اور دوغلا پن کو سیاست اور ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اپنے استعماری غلبے کے دوام کی خاطر جگہ جگہ خاص طور پر خونِ مسلم کی ارزانی ان کے لئے تفریح طبع کا درجہ رکھتی ہے۔ جبکہ برصغیر کے نامور سیرت نگار قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تحقیق کے مطابق محمدی انقلاب کے ۲۳ سالہ دور میں کل ۹۱۸/افراد مسلم و غیر مسلم کام آئے تھے۔[4] وہاں تہذیبی غلبہ کے پیچھے یہ روح کارفرما تھی کہ |