دوران غروبِ آفتاب سے قبل عرفات سے چل پڑتے تھے اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب کے بعد روانہ ہوتے۔ آپ نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے عرفات سے غروبِ آفتاب کے بعد اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے قبل کا اسلامی طریقہ جاری کیا۔[1] سیرتِ نبوی کا تفصیلی مطالعہ ایسے بہت سے اُمور سامنے لاتا ہے۔ جن میں آپ نے ثقافتی جنگ لڑی۔ چند روایات کی نشان دہی کی جاچکی ہے۔کیا یہ ساری مخالفت، مخالفت برائے مخالفت کی سوچ کے تحت تھی یا اعلیٰ اخلاقی اقدار اور بہترین تہذیبی روایات کو فروغ دینیکی خاطر تھی؟حقیقت یہ ہے کہ اس مخالفت کا سبب غیرمسلم تہذیبی روایات کا شر تھا یا پھر ان روایات کا کفر کا نمائندہ ہونا تھا۔ ورنہ اسلام کا یہ مزاج قطعاً نہیں ہے کہ مخالفت کے نام پر برائی کے ساتھ ہر اچھائی کی بھی مخالفت کرتا چلا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ تہذیب ِاسلامی کے بالمقابل اس دور کی دیگر تہذیبیں اعلیٰ تعلیمات اور بہترین تہذیبی روایات میں مقابلہ کرنے سے قاصر تھیں ۔ علاوہ ازیں اسلامی تہذیب میں زندگی کے ہر میدان میں جدت (Modernization) اور ترقی کی گنجائش موجود ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں تہذیب ِانسانی کے ارتقا میں اسلامی تہذیب نے بھرپور کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ مغربی دانشور وں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ آج بھی اسلامی تہذیب میں یہ صلاحیت باقی ہے۔ صرف اس تہذیب کے ماننے والوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے پختہ فکر حاملین کی ضرورت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیت المقدس کی فتح پر چابیاں پیش کرنے کے لئے اہل کتاب نے یاد کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ کپڑے پیوند زدہ تھے۔ سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اعلیٰ لباس پہننے کی گذارش کی تو فرمایا کہ ہمیں عزت اسلام کی بدولت نصیب ہوئی ہے[2] لباس کی بدولت نہیں ۔ اسلام اور اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی اسلامی تہذیب کل بھی عزت بخشنے والی تھی اور آج بھی ہے، کل بھی ہوگی۔ اور صرف اور صرف یہی تہذیب انسانیت کے لئے سلامتی کا پیغام اور بہترین طرزِ زندگی کا نمونہ پیش کرسکتی ہے؛ جس میں ہر علاقے، موسم اور افراد کے مطابق لچک موجود ہے اور اسی لچک کی بدولت اسلامی تہذیب دنیا میں ہرجگہ چل سکی۔ یہ تہذیب بنیادی ٹھوس فکری راہنمائی میں تو لچک نہیں دیتی لیکن ظاہری رویوں میں کفر و شرک کی نمائندہ نہ ٹھہرنے والی تمام روایات کے ساتھ نبھا کا سبق دیتی ہے۔ فطرتِ انسانی کی ہر خواہش پر پہرے بٹھانے یا شتر بے مہار کی طرح آزاد چھوڑنے کی بجائے اسے اعتدال کی راہ دکھاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں پھر سے اپنی اسلامی تہذیب کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ذہنی طور پر مرعوب ہونے کی وجہ سے ہمیں اسلا م تو پسند ہے لیکن اسلامی |