غیر اسلامی تہذیبوں سے مذہبی مشابہت پیغمبر انقلاب علیہ الصلوٰة والسلام کے مزاج کے خلاف تھی، اس لئے اوقاتِ عبادات بھی الگ مقرر کئے اور اغیار کے اوقاتِ عبادت مثلاً طلوعِ آفتاب ، غروبِ آفتاب کے وقت عبادت ممنوع قرا ردی۔[1] طریق عبادت میں بھی ثقافتی ٹکراؤ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ایک آدمی کوبائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ کر آپ نے منع فرماتے ہوئے کہا: إنها صلاة اليهود یہ[2] یہودیوں کی سی نماز ہے ۔ اسی طرح یہود کی مخالفت کا حکم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’خالفوا اليهود فإنهم لايصلون فی نعالهم ولاخفافهم“[3] ”یہودجوتے اور موزے میں نماز ادا نہیں کرتے ، تم اس میں ان سے مخالفت کرو“ نماز کے بہت سے مسائل کی طرح روزے کے بارے میں بھی مخالفت والا رویہ ظاہر و باہر ہے۔ سحری کو اپنے اور اہل کتاب کے روزہ کے درمیان فرق قرار دے کر روزے کے آغاز سے ہی مخالفت کی بنیاد رکھی اور فرمایا: ”فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الکتاب: أکلة السحور“[4] ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان بنیادی فرق سحری کھانا ہے۔“ آپ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے لئے روزے کی افطاری میں تعجیل کو اظہارِ دین کا سبب قرار دیا ہے۔ یعنی جب تک مخالفت برقرار رہے گی، افطاری بلاتاخیر ہوگی، مسلمان غالب رہیں گے؛ اس کے برعکس اگر مخالفت ترک کردیں ، افطار میں تعجیل کی بجائے احتیاط کے نام پر تاخیر در کر آئے گی تو غلبہ دین باقی نہیں رہے گا۔ حدیث ِنبوی کے الفاظ کچھ یوں ہیں : ”لايزال الدين ظاهرا ماعجل الناس الفطر لأن اليهود والنصاریٰ يؤخرون“[5] ”دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک مسلمان افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں ۔“ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کے دن اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرماتے کہ إنهما يوما عيد للمشرکين وأنا أريد أن أخالفهم“[6] ”یہ مشرکوں کی عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا پسند کرتا ہوں ۔“ یہودی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے، آپ نے ان کی مخالفت کے لئے صحابہ کو حکم دیا صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود [7] ”نو اور دس محرم دونوں کا روزہ رکھواور یہود کی مخالفت کرو“ نماز اور روزے کی طرح حج میں بھی اَغیار کی مخالفت کا رجحان جاری ہے۔ مشرکین عرب حج کے |