Maktaba Wahhabi

38 - 71
کے غلیظ گوشت کبھی بھی مسلمانوں کے دستر خوان کی زینت نہیں بنے۔ علاوہ ازیں فرداً فرداً کھانے کی عربی ثقافت میں تکبر کی بو اور باہمی پیار محبت کا فقدان نظر آتا تھا۔اس لئے آپ نے مل کر کھانے کو باعث برکت قرار دیتے ہوئے اس کلچر کو رواج دیا۔[1]نیزمیلے کچیلے ہاتھ منہ کے ساتھ کھانے پر جھپٹ پڑنے کی بجائے ہاتھ دھوکر، بسم اللہ پڑھ کر، اپنے سامنے سے اطمینان اور سکون کے ساتھ کھانے کا انتہائی مہذبانہ کلچر پروان چڑھایا۔[2] کوئی بھی غیراسلامی تہذیب آج تک اس مسلم ثقافت کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی طرح کچھ لوگ ترکِ یہودیت کے بعد اسلام میں داخل ہوئے۔ سابقہ مذہبی اثرات کے تحت ہفتے کے دن کو متبرک گردانتے ہوئے اس دن کی تعظیم، رات کی عبادتی رسم کی ادائیگی اور تورات کی چند آیتوں کے موافق عمل کرنے کی آپ سے اجازت چاہی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَافَّةً﴾[3] مسلمانو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، یعنی اسلام اپنے ساتھ تہذیب ِاغیار کی ذرا سی آلائش بھی گوارا نہیں کرتا بلکہ دو ٹوک ثقافتی جنگ کا اعلان کرتا ہے۔ آپ نے یہودیوں کے متبرک دن ہفتے اور عیسائیوں کے متبرک دن اِتوار کو چھوڑ کر اپنے لئے جمعہ کے دن کو پسند فرمایا۔یعنی ہفتہ وار مذہبی عبادت کے لئے دوسرے مذاہب کے طور اطوار اپنانا تو دور کی بات ہے، آپ نے دن کی مماثلت بھی گوارا نہیں کی بلکہ جگہ جگہ ثقافتی ٹکر مول لی۔ اغیار کی اجارہ داری کے سامنے یا اپنی رواداری کے نام پر ثقافتی جنگ میں قطعاً نرم رویہ نہیں دکھایا۔ بلکہ معاشرتی روایات ہوں خواہ مذہبی رسومات، ہر جگہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر سلامتی پر مبنی روایات اور خالص عبادات پر مبنی ثقافت کو ترویج دی۔ امام بخاری نیصحیح بخاری میں ’امام الجاہلیہ‘ کا باب باندھ کر اس ٹکراؤ کی نشاندہی کی ہے۔[4] نماز کے لئے اعلان یا بلاوے کے حوالے سے جب آپ کے سامنے نرسنگا کی تجویز رکھی گئی تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا کہ یہ یہود کا کام ہے، اس کے بعد ناقوس کی تجویز سامنے آئی تو آپ نے اسے بھی نصاریٰ کا کام کہہ کر ناپسند قرار دیا۔[5]ثقافتی جنگ یہاں بھی جاری تھی اور آپ اہل کتاب سے عبادت میں کسی طور مشابہت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ اہل کتاب کا قبلہ پسند نہیں رہا بلکہ یہاں بھی تبدیلی ضروری جانی۔باربار اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے بیت اللہ کو قبلہ ٹھہرائے جانے کی التجا میں ثقافتی جنگ کی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ بالآخر یہود و نصاریٰ کے قبلے کی بجائے اپنی پسند کے قبلے کی طرف رخ کرنے کی اجازت مل گئی۔[6]
Flag Counter