بوسیدہ اور پرانی قبروں کو ختم کیا جاسکتا ہے امام نووی فرماتے ہیں کہ بلا شرعی عذر قبر کو اکھاڑنا منع ہے۔ جب میت پرانی ہوکر مٹی بن جائے تو قبر اکھاڑنا جائز ہے اور اس وقت وہاں تعمیر یا زراعت بھی جائز ہے۔ اس زمین سے ہر طرح کا فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے، اس بات پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ ایسا اس وقت جائز ہے جب میت کی ہڈی وغیرہ کے نشان باقی نہ ہوں ۔ (المجموع:۵/۳۰۳ ) علامہ البانی نے ’کتاب الجنائز‘ میں اس فتویٰ کو نقل کرکے اس کی تائید فرمائی ہے۔(ص۲۳۵) سعودیہ میں بھی اس فتوے کے پیش نظر پرانی قبروں کو نئے مردوں کے لئے زیراستعمال لایا جاتا ہے۔ ان احادیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں ۱۔ میت کو زمین میں ہی دفن کیا جائے۔ ۲۔ پہاڑ بھی زمین کے حکم میں ہیں ۔ اس لئے پہاڑوں پر تدفین اور قبرستان بنانا درست ہے۔ ۳۔ آبادیوں میں قبرستان کا وسیع انتظام کیا جائے۔ ۴۔ غیر مسلمانوں کی تدفین کے لئے الگ قبرستان بنائے جائیں ۔ ۵۔ مسجدوں ، گھروں میں تدفین، پختہ مزارات کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ۶۔ قبرستانوں میں مساجد تعمیر نہ کی جائیں ۔ ۷۔ پہلے سے تعمیر شدہ مساجد کو ختم کرکے قبرستان کو وسعت دی جائے۔ ۸۔ عوام کو کچی قبروں پر پابند کیا جائے کیونکہ تمام فقہی مذاہب کی رو سے پختہ قبروں کی ممانعت ہے ۔ ۱۱۔ اسی طرح پختہ قبروں کو کچی قبروں میں تبدیل کیا جائے۔ایک قبر کے ساتھ چار دیواری، مزار یا درختوں وغیرہ کے لئے حاصل کی جانے والی زمین ضبط کی جائے۔ ۱۲۔ قبرستان کی ساری زمین صرف قبروں کے لئے استعمال کی جائے۔ ۱۳۔ انتہائی مجبوری کی صورت میں ایک قبر میں زیادہ مردے دفن کرنے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ۱۶۔ بوسیدہ قبروں کونئے مردوں کے لئے قابل استعمال بنایا جائے۔ ۱۷۔ کسی قبر میں لاش (میت) کے مکمل حل پذیر ہونے کی قدرتی مدت کا تجربہ کیا جائے اور اس کے بعد وہاں نئی قبر بنانے کی اجازت دی جائے۔ ۱۸۔ اگرکسی قبر سے ہڈیاں وغیرہ برآمد ہوں تو انہیں نئے مردے کے ساتھ دوبارہ دفن کیا جائے۔ ۱۹۔ فطری طور پر ایک دو نسلوں کے بعد نئی نسل اپنے پرانے مردے کی خبرگیری چھوڑ دیتی ہے اور آخرکار |