لکھوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا معین الدین لکھوی، حافظ عبدالمنان نورپوری، پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی جیسی فاضل شخصیات فارغ التحصیل ہیں ۔ مولانا کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ نصف صدی تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں ہے۔ ۱۹۳۲ء کے قرب و جوار کا وقت تھا جب علم تجوید و قراء ت کو سلفی العقیدہ حضرات اس قدر اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ تب حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور کی مسجد چینیانوالی میں علم تجوید و قراء ت کا پودا کاشت کیا توگوجرانوالہ میں حضرت مولانااسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ محمدیہ چوک اہلحدیث میں علم تجوید وقراء ت کی تعلیم اور ذوق عام کرنے کے لئے ایک شعبہ قائم کیا۔ جس کی عرصہ ۲۷،۲۸ سال تک مولانا مرحوم نے بڑی بڑی مشقتیں برداشت کرکے آبیاری اور پرورش کی اور شعبہ پر آنچ نہ آنے دی۔ آج علومِ قرآن سے فیض یافتہ قراء حضرات کے پیچھے حضرت مولانا مرحوم کی انتھک محنتوں کا ہاتھ ہے۔ حضرت مولانا جب سخت علیل ہوئے تو اس شعبہ کی ذمہ داری مولانا حافظ محمد امین محمدی صاحب کے سر آن پڑی، جواپنی بلند ہمتی کی بنا پر اس شعبہ کو عام کرنے کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ مولانا امین محمدی صاحب جامعہ اسلامیہ نصر العلوم عالم چوک گوجرانوالہ کے بانی ہیں ۔ سفرِ آخرت مولانا عبداللہ مرحوم صاحب اپنے بڑے بیٹے عبدالرحمن کی اچانک وفات کے بعد مسلسل نحیف ہوتے چلے گئے۔ اوپر سے بڑھاپے نے اثرات دکھانا شروع کردیئے۔ بالآخر ۲۸/اپریل ۲۰۰۱ء کو صبح چھ بجے علامہ اقبال میموریل ہسپتال، گوجرانوالہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ سہ پہرساڑھے پانچ بجے شیرانوالہ باغ میں پڑھی گئی جو گوجرانوالہ شہر کی تاریخی نماز جنازہ تھی۔ جس میں بلا امتیاز ہر مکتب ِفکر کی مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی … اللّٰهم اغفرله وارحمه! چمن علماء (جامعہ محمدیہ ) سے شیرانوالہ باغ تک مولانا مرحوم کے وفات کی خبر جیسے جیسے پھیلتی گئی۔ عورتوں و مردوں کا ہجوم مولانا کے گھر اور جامعہ محمدیہ میں بڑھتا گیا۔ ۱۲ بجے کی خبروں میں مولانا کی خبر وفات نشر کردی گئی تھی، اس خبر کا نشر ہونا تھا کہ لوگ دوسرے شہروں سے گوجرانوالہ پہنچناشروع ہوگئے۔ انتظام کرنے والے احباب نے جنازہ کے لئے شیرانوالہ باغ کا چناؤ کیا اور ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر ہوا۔ حسب ِ پروگرام گھر سے بعد از غسل و تکفین جسد خاکی کو جامعہ محمدیہ چمن علماء میں لایا گیا، جہاں میت کو کچھ وقت کے لئے دیدارِ عام کے لئے رکھا گیا۔ علماء طلباء جامعہ اور دیگر حضرات دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے کہ وہ عبداللہ جس نے اس چمن کی خون پسینہ |