دار ُالافتاء شیخ الحدیث حافظ ثنا ء ُاللہ مدنی ٭ نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرا ء ت پر اعتراضات کا جائزہ ٭ سجدہ قرآن اور نماز میں سجدہ قرآنی کی دعا، مسئلہ وراثت ماہنامہ ’محدث‘ اور ہفت روزہ ’الاعتصام‘ موٴرخہ ۱۵/ دسمبر ۲۰۰۰ء میں جنازہ کے بعد مروّجہ دعا کے سلسلہ میں حنفی، بریلوی فتویٰ کے تعاقب میں میرا ایک فتویٰ شائع ہوا۔ اس میں ضمناً جنازہ میں سورہٴ فاتحہ کی قرأت کامسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ اس پر اسلام آباد سے محترم ابوبکر صدیق صاحب بایں الفاظ معترض ہیں : ”بخاری میں اس سلسلہ کی کوئی مسند روایت کہاں ہے؟ اس بات کے ضعف کا آپ کو اندازہ تھا، اس لئے گول مول الفاظ استعمال کرکے قارئین کو یہ تاثر دیا گیا گویا بخاری میں کوئی مرفوع حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے۔ اگر اس باب میں مرفوع حدیث ہوتی تو بحوالہ ابن حجر حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ اور ابن عمررضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ قراء تِ فاتحہ کیوں نہ کرتے؟“ قارئین کرام! اس وقت بنیادی طور پر اس بات کا جائزہ لینا مقصود ہے کہ کیا نمازِ جنازہ میں قراء ة فاتحہ ثابت ہے یا نہیں ؟ (۱) پہلے صحیح بخاری میں باب قراء ة فاتحة الکتاب علی الجنازة کے تحت مشارالیہ حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ”انہوں نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، جس میں سورة فاتحہ پڑھی اور فرمایا (میں نے فاتحہ اس لئے پڑھی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ جنازہ میں سورہٴ فاتحہ پڑھنا سنت ہے“… اور حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک جنازہ میں الحمد جہر سے پڑھی، پھر فرمایا: میں نے جہر سے اس لئے پڑھا ہے تاکہ تم لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ جنازہ میں الحمد پڑھنا سنت ہے۔“ (۲) اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ نمازی سورہٴ فاتحہ پڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، پھر میت کے واسطے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف ایک ہی مرتبہ کرے، پھر سلام پھیرے۔ ملاحظہ ہو کتاب فضل الصلاة علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور المنتقی ابن جارود۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیحین کے روای ہے کذا فی النیل۔ (۳) امام عبدالرزاق اور نسائی رحمہما اللہ نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ”نمازِ جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ نمازی اللہ اکبر کہے پھر سورہٴ فاتحہ پڑھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ |