یادِ رفتگاں عبدالشکور ظہیر ( حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ (شخصیت، علمی وجماعتی خدمات ، چند ایمان افروز واقعات اور سفر آخرت ) شاہراہِ زندگی کی منازل طے کرنے کے بعد موت کے پل کو عبور کرکے دارِعقبیٰ میں قدم رکھنا ہر ذی روح کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقررہ کردہ اٹل قانون ہے جس کے تحت لاکھوں انسان دارِفانی میں آنکھ کھولتے اور ہزاروں لوگ کچھ اس انداز سے رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ کسی کوخبر تک نہیں ہوتی۔ مگر کچھ لوگ اپنے سیرت و کردار ، حسن اخلاق اور علمی کارناموں کی حسین یادیں کتابِ زمانہ کے اوراق میں بکھیر جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کبھی بھی محو نہیں ہوپاتیں ۔ موت جتنی بڑی حقیقت ہے، اتنی ہی بری خبر بھی لیکن اس سے بڑھ کر یقین والی بات کوئی نہیں !! اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روزِ اول سے اب تک اور آج سے روزِ آخر تک اللہ تعالیٰ پیغام توحید، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبرک اسوہٴ حسنہ، تعلیمات کی تبلیغ و ترویج او رانہیں ایک عہد سے دوسرے عہد تک منتقل کرنے کے لئے ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے نوازتے رہے ہیں جن کی زندگی اعلیٰ و ارفع مقاصد، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف رہی ہے اور رہے گی۔ ان شخصیات نے اپنے اپنے وقت میں ، حالات و واقعات کے مطابق، نہایت مشکل اور نامساعد حالات کے باوصف ، ناقدری ٴ زمانہ کے باوجود، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامِ دلنشین کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے میں جو بے نظیر خدمات سرانجام دی ہیں ، وہ ہماری تاریخ کا قیمتی ورثہ ہے۔ انہی جیسی شخصیات میں سے ایک روشن ستارہ مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، جو ۲۸/ اپریل ۲۰۰۱ء بروز ہفتہ ۸۱ برس کی عمر میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے(انا لله وانا اليه راجعون)… آئیے ان کے ایمان پرور روشن ابوابِ زندگی ملاحظہ کرتے ہیں پیدائش ، نام و نسب حضرت مولانا کی پیدائش ۱۸/ مارچ ۱۹۲۰ء بمطابق ۲۶/جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ بروز جمعرات، سرگودھا سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور بھیرہ اور ملک وال کے تاریخی قصبات کے پاس تحصیل بھلوال کے نواحی گاؤں چک نمبر ۱۶ جنوبی میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی مولانا عبدالرحمن نے آپ کا نام محمد عبداللہ رکھا۔ بعدازاں آپ ’شیخ الحدیث‘ کے لقب کے ساتھ مشہور ہوئے۔ اکثر و بیشتر علماء و طلباء آپ کو شیخ الحدیث |