Maktaba Wahhabi

73 - 86
سکھوں کو پنجابی زبان و ادب سے اس قدر دلچسپی اور انہماک کبھی نہ ہوتا، اگر ان کے ’پیغمبر‘ گورونانک کی مادری زبان پنجابی نہ ہوتی۔ ان کی مذہبی کتابیں ’گرنتھ صاحب‘ وغیرہ بنیادی طور پر پنجابی میں ہیں ۔ یہودی قوم نے گذشتہ دو ہزار برسوں میں خوب دھکے کھائے، پوری دنیا میں ذلیل ہوتے پھرے، مگر وہ جہاں بھی گئے، انہوں نے اپنی زبان عبرانی کو کبھی نہ چھوڑا۔ اس قدر قدیم اور متروک زبان کواگر وہ اب تک گلے لگائے ہوئے ہیں تو اس کی محض ایک ہی وجہ ہے کہ یہ ان کی مذہبی زبان ہے۔ چینی ادب سے کنفیوشس کی تعلیمات نکال دی جائیں ، تو اس کی جو صورت باقی رہے گی، اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ انگریزی زبان جس سطح پر آج پہنچی ہوئی ہے ، کبھی نہ پہنچ پاتی اگر اس کے ارتقا میں عیسائیت نے کردار ادا نہ کیاہوتا۔ سترہویں صدی سے پہلے کا انگریزی ادب زیادہ تر مذہبی ادب ہی ہے۔ لاطینی زبان جسے عیسائی دنیا میں ایک طویل عرصہ تک مذہبی زبان کے تقدس کا درجہ حاصل رہا، اگر اس زبان کے الفاظ کو انگریزی سے نکال دیا جائے، تو انگریزی کے علوم و فنون کا کثیر حصہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ مختصر بات یہ ہے کہ پنجابی زبان و ادب کا جو کچھ ذخیرہ اب تک سامنے آیا ہے، اس میں سے مذہب کو خارج کردیں تو پنجابی ادب اپنا وقار کھو دے گا۔ اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو راقم یہ کہنے کا میلان رکھتا ہے کہ پنجابی ادب اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ۷۔ پنجابی کے کلاسیکی ادب کواسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا: آج عالمی پنجابی کانفرنس میں شریک مذہب بیزار دانشور قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرنے دیتے کیونکہ ان کے خیال میں یہ بات ’روا داری‘ کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ایک دانشور نے تو بے حد ملحدانہ بے باکی سے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان تلاوت کے لئے نہیں بنا تھا۔ مارکسزم کو اپنے ذہن پر سوار کرنے والے بزرگ صحافی عبداللہ ملک نے مذکورہ کانفرنس میں کہا کہ پنجابیت درحقیقت انسانیت ہے۔ ایسی کانفرنسوں میں شریک دانشور اپنے آپ کو انسان دوستی کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی ’رواداری‘ اور ’انسان دوستی‘ کا سرچشمہ درحقیقت صوفیاکی تعلیمات ہیں ۔ مگر جس ’رواداری‘ اورانسان دوستی کا یہ پرچار کرتے ہیں ، اس کو صوفیاسے منسوب کرناایک پرلے درجے کی دروغ گوئی اور صوفیاکے خلاف ایک گھٹیا درجہ کی بہتان تراشی ہے۔ ان کی کھوکھلی، فریب انگیز رواداری اور مکارانہ انسان دوستی، کا اصل سرچشمہ ان کا وہ ’مذہب‘ ہے جس کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ’ملحدانہ اشتراکیت‘ کا نام دیا تھا۔ ذرا غور فرمائیے یہ اپنے آپ کو صوفیاکی تعلیمات کے پیروکار سمجھتے ہیں مگر ان کا طرزِعمل ان سے کس قدر مختلف ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی ’روا داری‘ تو اس قدر نازک ہے کہ یہ پنجابی کانفرنس میں سکھوں کی موجودگی میں تلاوتِ قرآن مجید تک کو برداشت نہیں کرپاتی مگر صوفیا ایسی معذرت خواہانہ رواداری پر یقین نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ہزاروں ایسے اشعار ہیں جو درحقیقت قرآن مجید کی کسی آیت یا حدیث کا لفظی ترجمہ ہیں ۔ ان کی شاعری پر قرآن و حدیث کے واضح نقوش مرتسم ہیں ۔ کوئی بھی شخص جو قرآن و حدیث سے واقف نہیں ہے، ان کی شاعری کے بیشتر حصے کا اِدراک ہی نہیں کرپائے گا۔ ڈاکٹر سید اختر جعفری نے ”پنجابی ادب اُتے قرآن حکیم دے اثرات“ کے عنوان سے ایک نہایت پرمغز اور جامع مقالہ تحریرکیا ہے، ان کا یہ مقالہ ان کی کتاب ’نویں زاویے‘ میں شامل ہے۔ (جاری ہے)
Flag Counter