Maktaba Wahhabi

72 - 86
مختلف ہے۔ ڈاکٹر سید اختر جعفری پنجابی زبان کے معروف مصنف اور نقاد ہیں ۔ ان کی کتاب ’نویں زاویے‘، پنجابی ادبی تنقید کے حوالے سے مقبولیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صدارتی ادبی ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہے۔یہ کتاب سی ایس ایس کے پنجابی کے پرچے میں بھی شامل ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : ”لسانی اعتبار سے پنجابی زبان اور ادب کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کے داخل ہونے کے ساتھ ہی پنجابی نے اپنے آپ کو بھرنش (زبان) سے جدا کرکے اپنا بالکل وکھرا، منفرد اور قابل پہچان روپ اختیار کر لیا۔ یعنی پنجابی بولی کا پراکرت اور بھرنش زبان سے رشتہ (سانجھ) ٹوٹ گیا۔ اس وقت صو فیاے کرام نے پنجاب میں اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا، ان کی کوششوں سے قرآن پاک کی تعلیم عام ہوئی۔ اسلامی تصوف کی ٹھنڈی چھائیں ہندوستان کی زمین پر پھیل گئیں ۔ جس کے نتیجے میں عربی اور فارسی کے ان گنت الفاظ خود بخود وقتکے ساتھ پنجابی زبان میں داخل ہوگئے۔ ان میں سے بہت سارے ایسے الفاظ تھے جو پہلے پنجابی میں موجود نہیں تھے۔“ (نویں زاویے:صفحہ ۴۶۶) پنجابی زبان کے مستند محقق تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی پنجابی زبان کا پراکرت اور بھرنش سے اس وقت ہی سانجھ ٹوٹ گیا تھا جب اسلام پنجاب میں داخل ہوا، نجانے فخرزماں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کس لسانی اشتراک کی بنیاد پر ’سانجھے کلچر‘ کو پروان چڑھانے کی واہیات جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ۶۔ زبان او رمذہب کا اٹوٹ رشتہ: ہمارے سیکولر دانشور جس قدر جی چاہے مذہب کے خلاف اپنے خبث ِباطن اور بیزاری کا اظہار کرتے پھریں مگر یہ ایک یونیورسل ( آفاقی) حقیقت ہے کہ کرہ ٴ ارضی کی معروف اور بڑی زبانوں کے ارتقا اور ترقی میں مذہب اور مذہبی تعلیمات نے بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بعض خطے کے رہنے والوں نے نہایت خوش دلی کے ساتھ اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر ایک ایسی زبان کو اپنا لیا جس میں ان کی مذہبی تعلیمات کا ذخیرہ موجود تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ مذہبی زبان ہی ان کی مادری زبان کا روپ دھار گئی۔ مصر، تیونس، لیبیا، مراکش، الجزائر، سوڈان جیسے ممالک کے لوگ آج عربی زبان بولتے ہیں ، مسلمانوں کی آمد سے پہلے ان علاقوں کی الگ الگ زبانیں موجود تھیں ۔ مگر ان لوگوں نے عربی زبان کو اس قدر والہانہ پذیرائی بخشی کہ ان کی قدیم مادری زبانیں اب صرف تاریخ کے صفحات پر ہی موجود ہیں ۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان خطوں کی زبانیں عربی کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ تھیں ۔ زبان ترقی یافتہ ہو یا غیر ترقی یافتہ، اس کے بولنے والے اس کے متعلق لسانی عصبیت ضرور رکھتے ہیں ۔ زور اور جبر سے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ عربی زبان کو اپنا لینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ زبان وہ ہے جس میں قرآن مجید اُترا اور یہ زبان مسلمانوں کے آقاے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے۔ اس زبان سے مسلمانوں کی دلچسپی محض ادبی اعتبار سے نہیں ، اس سے عقیدت کی حقیقی وجہ اس کا اسلام سے تعلق ہے۔ مندرجہ بالا علاقوں کے علاوہ ایران، فارس کے بہت سے علاقوں میں بھی مسلمانوں نے فارسی کی بجائے عربی زبان کو اپنا لیا۔ اس زمانے کے معروف عجمی سائنس دانوں ، علما اور صوفیاے کرام نے عربی زبان میں تصانیف تحریر کیں ۔ سنسکرت اور ہندی سے ہندوؤں کی دلچسپی محض لسانی اور علاقائی عصبیت کی بنیاد پر نہیں ہے۔ وہ ان زبانوں سے والہانہ شغف رکھتے ہیں کیونکہ انہی زبانوں میں ان کا مذہبی لٹریچر موجود ہے۔ آج بھارت میں اردو، فارسی اور عربی زبان کو جو دیس نکالا دیا جارہا ہے، اس کے محرکات بھی مذہبی ہی ہیں ۔
Flag Counter