Maktaba Wahhabi

71 - 86
۵۔ہندوستان اور پاکستان کی پنجابی میں زمین آسمان کا فرق ہے: یہ ایک فکری مغالطہ ہے کہ پنجاب کے سکھوں ، ہندوؤں اور مسلمانوں کی مادر ی زبان ’پنجابی‘ ایک ہے۔ مسلمان جو پنجابی بولتے ہیں وہ اس پنجابی سے بہت مختلف ہے جو ہندو یا سکھ بولتے ہیں ۔ ایک ہی علاقے کے رہنے والے مسلمان اور سکھوں کا لہجہ شاید ملتا جلتا ہو، مگر ان کا ذخیرہ الفاظ ایک نہیں ہے۔ مسلمانوں کی پنجابی پر عربی، فارسی ادب اور اسلامی تعلیمات کا گہرا اثر ہے۔ سکھوں اور ہندوؤں کی پنجابی پر ہندی زبان اور سنسکرت کے الفاظ کا اثر اس قدر زیادہ ہے کہ ایک ہندو ادیب کی پنجابی تحریر بعض اوقات ایک مسلمان کے لئے سمجھنا بے حد دشوار ہوجاتاہے۔ یہ موضوع بے حد تفصیلی تنقید و تحقیق کا متقاضی ہے۔ مگر راقم یہاں اختصار کے ساتھ اس بنیادی فرق کو واضح کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ راقم کے سامنے اس وقت امرتسر سے نکلنے والا معروف پنجابی زبان کا رسالہ ’اجو کے شیلا لیکھ‘ کا اپریل ۲۰۰۱ء کا شمارہ ہے۔ اس کے ایڈیٹر ایچ۔ ایس بھٹی ہیں جو ورلڈ پنجابیت فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں ۔ کھوجی کا فر جو اس فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں ، اس رسالہ کے بورڈ کے ممبر ہیں ۔ یہ رسالہ عالمی پنجابی کانفرنس کے دوران تقسیم کیا گیا۔ اس رسالہ میں شامل مضامین سے منتخب کئے گئے چند فقرے ملاحظہ کیجئے : ۱۔ اس سماگم دا سنچالن سمپاوک پنجابی ٹربیوں نے کیتا، اس دی پردھانگی شری ہربھجن ہوار وی نے کیتی۔ ص۵ ۲۔ اس توں بلا سنماں سماروح شروع ہوئیا۔ (صفحہ نمبر ۵) ۳۔اتے پاکستان وچ پنجابی ضبان اتے سجھیا چار دی ستھتی نے چانناں پائیا۔ (صفحہ ۷) ۴۔پنجابی بدھی جیویاں نے آپنے خیالی پرگٹ کیتے۔ (صفحہ نمبر ۷) ۵۔پنجابیاں دے لگاتار استھر اتہاس نے اتے جھوجھن دے سوبھاونے نے ایہنانوں شکتی شالی طاقت بخشی، اونوں دیش دی گھڑگ بھوجانبادتا۔ (صفحہ نمبر ۹) مندرجہ بالا فقروں میں استعمال کئے گئے الفاظ ”سما گم، سنچالن، سمپاوک، پردھانگی، سنمان، سما روح، سبھیا، ستھتی، بدھی جیویاں ، پرگٹ، جھوجھن، شکتی شالی، گھڑگ، استھراتہاس وغیرہ لاہور میں بسنے والا شاید ہی کوئی مسلمان پنجابی سمجھتا ہو۔ مذکورہ رسالہ کا نام بھی پاکستانی پنجاب کے لوگوں کی سمجھ میں آنے والا نہیں ہے۔ اس رسالے کے پہلے صفحے پر سرپرستوں اور مدیروں کے نام دیئے گئے ہیں ۔ جس میں ایچ ایس بھٹی کو ’مکھ پربندھک‘ اور کھوجی کافر کو ’پربندھی سمپاوک‘ لکھا گیا ہے ، نجانے ان الفاظ کا مطلب سرپرست ِاعلیٰ یا مدیر ہے یا کچھ اور ۔ اس رسالہ پر ناشر کے لئے ’پرکاشک‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ پاکستانی پنجاب میں شائع ہونے والے کسی پنجابی زبان کے رسالہ کے شروع میں اس طرح کے الفاظ کبھی استعمال کئے گئے ہیں ۔ میرے سامنے اس وقت لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ ’پنجابی‘ کے چند شمارے رکھے ہیں ۔ اس کے سرورق پر لکھا ہے: ’ایڈیٹر: محمد جنید اکرم‘ اس رسالہ کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد پنجابی زبان میں چھپنے والا یہ پہلا رسالہ ہے۔ ایڈیٹر کے لفظ کے علاوہ، سرپرست، نگران، نگرانِ اشاعت، ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور مینیجنگ ایڈیٹر جیسے الفاظ، عہدے اور نام بھی اس پر شائع شدہ ہیں ۔ ان دو رسالوں میں دی گئی فہرست عہدیداران سے ہی مغربی اور مشرقی پنجاب میں بولی اور لکھی جانے والی پنجابی کا فرق بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ تو بات وضاحت کی محتاج نہیں کہ سکھ گورمکھی رسم الخط میں پنجابی لکھتے ہیں جبکہ مسلمان شاہ مکھی میں جو درحقیقت فارسی رسم الخط ہے۔ پاکستانی پنجاب میں کتنے لوگ ہیں جو گورمکھی کوپڑھ اور لکھ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی پنجابی غیر مسلموں کی پنجابی سے اتنی ہی مختلف ہے جتنی کہ ہندی اُردو سے
Flag Counter