Maktaba Wahhabi

70 - 86
پنجابیت کے بڑے دعویدارفخرزماں نے پنجابی لباس کی بجائے فرنگی لباس ٹی شرٹ کے ساتھ پہنا ہوا تھا۔ کانفرنس میں شریک سکھ شرکا نے سوائے سروں پر پگڑ باندھنے کے باقی تمام انگریزی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ یہ کون سی پنجابیت ہے جس میں پنجابی لباس کہیں نظر نہیں آتا۔ پھر ذرا غور فرمائیے اہل پنجاب، بالخصوص مسلمان کتنے ہیں جو شراب یوں اجتماعی مجالس میں غٹا غٹ پیتے ہیں ۔ کانفرنس کے دوران فلیٹیز ہوٹل میں سکھوں ، ہندوؤں ، مشرقی پنجاب سے آنے والی بے حیا لڑکیوں اور پاکستان کے پنجابی دانشوروں نے اس قدر شراب چڑھائی کہ اخبارات کے رپورٹرز کے بقول گذشتہ چار ماہ میں شراب کے اس قدر پرمٹ جاری نہیں ہوئے تھے۔ تکبیر کے نمائندے اسرار بخاری کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے مقامی راہنما اور شاعر اسلم گورداس پوری شراب کے نشے میں بری طرح دھت تھے اور ان کی غیر شائستہ حرکتوں کا سب ہی نے نوٹس لیا۔ بھارتی شاعر گوربچن سنگھ جب اپنا کلام سنا رہے تھے، سامعین میں موجود سکھوں نے جو بری طرح ٹن تھے، نازیبا حرکتیں شروع کردیں ۔ بالاخر گوربچن سنگھ کو آواز دینی پڑی، ”انتظامیہ ایناں نوں نتھ پائے!۔ “ بھارت سے آئی ہوئی ڈانسر لڑکیاں مسلسل توجہ کا مرکز بنی رہیں ۔ ان لڑکیوں کے کمرے بھی رات گئے تک پررونق رہے۔ (تکبیر، ۲۵/ اپریل) یہ بے حیائی اور بدمعاشی کا کلچر آخر پنجاب کا کلچر کیسے ہوگیا؟ ۲۰ /اپریل کے روزنامہ ’انصاف‘ میں پنجابی کانفرنس کااہتمام کرنے والے کرتا دھرتا خواتین و حضرات کی ذاتی زندگیوں کے حوالے سے رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجابیت کے پرچارک فخرزماں کا بیٹا انگریزی بولتا ہے، گھر میں مغربی فلمیں چلتی ہیں ، پنجابی لباس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے… کانفرنس کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن حمیداختر صاحب پنجابی لکھ نہیں سکتے…طاہرہ مظہر علی کے دونوں بیٹے یورپ میں عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ان کی بیٹی ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر رہی ہیں ۔ ان کا گھرانہ انگریزی صحافت سے ہی وابستہ رہا، گھر میں پنجابی کو کوئی منہ نہیں لگاتا۔ فخرزماں کا ایک بیٹا لاہور گرامر سکول میں زیرتعلیم ہے، گھر میں انگریزی ہی چلتی ہے۔ ان کے گھر کا پورا ماحول مغربی طرز کا ہے… طاہرہ مظہر علی خان کا گھر مغربی طرز کا ایک شاہکار ہے۔ ان کے گھر میں کوئی ایک شخص بھی پنجابی زبان میں بات نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ انگریزی بولنے اور سیکھنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں ۔ یہ لکھتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ کانفرنس میں شریک ہونے والے بھارتی اداکار راج ببر کی بیوی نادرہ کا تعلق ’مسلمان‘ گھرانے سے ہے۔ یہ پاک و ہند میں ترقی پسند تحریک کے باقی معروف کمیونسٹ راہنما سجاد ظہیر کی صاحبزادی ہیں ۔ کیا کوئی پنجاب میں ایسا بے غیرت موجود ہے جو اپنی بیٹی کا’نکاح‘ کسی ہندو سے کر دے۔ پنجاب کی غیرت مند بیٹیوں نے تو ہندوؤں کے چھونے کی بجائے موت کو ترجیح دی تھی۔ مگر آج پنجابیت کی علمبردار ایک نام نہاد ’مسلمان‘ عورت ایک ہندو کی بیوی بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ پنجاب کے سادہ لوح عوام یہ پوچھنے کا آخر حق تو رکھتے ہیں کہ یہ لوگ جو پنجابیت کے خود ساختہ پرچارک بنے ہوئے ہیں ، ان کی اپنی زندگیوں میں پنجابیت کس قدر سرایت کئے ہوئے ہے؟ یہ اہل پنجاب اور ان کی ثقافت کا کھلا استحصال ہے۔ روزنامہ انصاف کے اداریہ نویس کی پیش گوئی بالکل درست ہے:”عوامی ردّعمل ان کے خلاف ہوا، تو انہیں پناہ کے لئے لندن یا دلی بھاگنا ہوگا، پنجاب کی سرزمین میں انہیں کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔“ (۲۵/ اپریل)
Flag Counter