Maktaba Wahhabi

69 - 86
پنجاب میں سکھوں کو شکست دی تو عام مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر ۱۹۴۷ء میں سکھوں کے وحشی جتھوں نے پاکستان آنے والے مہاجرین کے قافلوں کے ساتھ جس غارت گری کا مظاہرہ کیا، اس کو مسلمان کیسے فراموش کرسکتے ہیں ۔ پنجابیت کے بے حمیت علمبرداروں کی آنکھ کا پانی خشک نہ ہوچکا ہوتا تو وہ کبھی سکھوں کے ساتھ ’سانجھے کلچر‘ کو پروان چڑھانے کی بات نہ کرتے۔ پنجاب میں آج بھی لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جہاں کوئی نہ کوئی مہاجر اپنے عزیز و اقارب کے قتل ہونے کے واقعات سنانے کے لئے زندہ ہے۔ مشرقی پنجاب میں اب بھی ایسی ہزاروں بے بس اور ستم رسیدہ بوڑھی مسلمان عورتیں زندہ ہوں گی جنہیں ۱۹۴۷ء میں سکھ بدمعاشوں نے اغوا کرکے اپنے گھر میں رکھ لیا تھا۔ حالات کے جبر نے انہیں غیر مسلمانوں کے ساتھ زوجیت کا بے نکاحی رشتہ نبھانے پرمجبور کردیا۔ نجانے ان میں سے کتنی آج بھی کسی محمد بن قاسم جیسے بھائی، باپ، بھتیجے کے انتظار میں ہوں گی جو اپنے مسلمان ہاتھوں سے انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا سکے۔ ابھی چند سال پہلے اس طرح کی مظلوم عورت کس طرح لاہو رپہنچ گئی تھی مگر تلاشِ بسیار کے باوجود یہ اپنے خاندان کو تلاش نہ کرسکی۔ فخر زماں جو آج پنجاب سے اُردو بولنے والوں کو دھکے دے کر نکال دینے کی بڑھکیں ما ر رہا ہے، اس میں اسلامی حمیت بلکہ پنجاب کی غیرت ہی ہوتی تو وہ ان بے بس مسلمان عورتوں کا سکھوں سے حساب ضرور مانگتا۔ مگر جب اِلحاد رگ و پے میں سرایت کرجائے تو پھر ایسی حمیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ فخر زماں جیسے بے غیرت اَفراد کا حوصلہ ہے کہ وہ چندی گڑھ میں جاکر ایوارڈ وصول کرتے ہیں اور لاہور میں پنجابی کانفرنس کے پردے میں سکھوں کے ساتھ شراب و کباب کی فاسقانہ محافل برپا کرتے ہیں ۔ ۳۔ پنجابی زبان و ادب اور پنجابیت کے خانہ زاد علمبردار بے نور دماغ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اپنے نظریات کی تکمیل کے لئے جو تنظیم قائم کرتے ہیں ، اس کا نام ہی پنجابی زبان میں رکھ سکیں ۔ لاہور میں پنجابی کانفرنس کا اہتمام کرنے والی تنظیم کا نام ” ورلڈ پنجابیت فاؤنڈیشن“ ہے جس کے ارکان میں ’مہادانشور‘ قسم کے لوگ شامل ہیں ۔ فخرزماں ، ا س کے نائب صدر ہیں ۔ اس تنظیم کے نام میں ورلڈ اور فاؤنڈیشن تو انگریزی کے الفاظ ہیں مگر ’پنجابیت‘ فارسی یا اُردو سے لیا گیا ہے۔ کیا پنجابی زبان میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں ہے؟ اگرپہلے سے نہیں ہے تو نیا لفظ بھی ایجاد کیا جاسکتا تھا۔ مگر سطحی ذہن رکھنے والے یہ نعرہ باز قسم کے دانشور اتنا بھی تکلف نہیں کرسکے۔ یہ پنجابی زبان و ادب کی خدمت کیا خاک کریں گے؟؟ ۴۔پنچابی ثقافت اورپنجابی زبان سے منتظمین کا اِنحراف : پنجابی کانفرنس میں پنجابیت کی بات تو بہت کی گئی، مگر اس اصطلاح کا حقیقی مفہوم واضح کرنے کی زحمت کسی دانشور نے گوارا نہ کی۔ پنجابیت سے مراد اگر پنجابی کلچر ہے، تو اس کا مظاہرہ پنجابی کانفرنس میں دیکھنے میں نہ آیا۔ پنجابیت کے یہ کوتاہ فکردانش باز شاید کلچر میں زبان ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ کلچر جن متعدد اجزا سے مل کر تشکیل پاتا ہے، ان میں رہن سہن، عادات و اطوار، لباس و پوشاک، طرز زندگی، عقائد و ایمان، پسند ناپسند، سماجی رو یے، کھانے پینے کے مخصوص طریقے، اندازِ نشست و برخاست، انسانی رویے غرض اس طر ح کے بے شمار عناصر ہیں جن کے مجموعہ کو کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجابی کانفرنس میں جوکلچر پیش کیا گیا وہ بدمعاشوں اور اوباشوں کا کلچر تو کہا جاسکتاہے، پنجاب کے شرفا یا عوام کا کلچر ہرگز نہیں ہے۔
Flag Counter