Maktaba Wahhabi

68 - 86
آئیڈیالوجی ہے کیونکہ یہ ریاستی کنٹرول سے لے کر افراد کی زندگی کے لئے ایک ضابطہ حیات تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس پنجابیت کو آئیڈیالوجی قرار دینا ایک حد درجہ غیر عقلی بات ہے۔ یہ محض سخن سازی تو ہے، اس کا حقائق نفس الامری سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ اسی طرح زبان مذہب سے بڑی سچائی نہیں ہے۔ اس مادّہ پرستانہ دور میں بھی بین الاقوامی تعلقات کا دائرہ ہو یا ریاست کے مختلف طبقات کے درمیان باہمی رشتوں کے تعین کا مسئلہ ہو، مذہب کی اہمیت ہر جگہ مسلمہ ہے۔ اہل مغرب اور بھارتی جنتا اپنے سیکولر ہونے کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹتے رہیں ، مسلمانوں سے ان کے تعلقات کی بنیاد ہمیشہ مذہبی فرق کو پیش نظر رکھ کر ہی رکھی جاتی ہے۔ روزنامہ انصاف کے اداریہ کی یہ سطور حقیقت کی آئینہ دار ہیں : ”پنجابیت نہ سچ ہے، نہ جھوٹ، نہ یہ حق ہے نہ باطل، نہ یہ کوئی خوبی ہے نہ برائی، اور اگر لسانیت کو ان باتوں کامعیار بنا دیا گیا تو یہ دنیا بہت پرفتن ہوجائے گی۔ مذہب ہی اصل سچ ہے، بشرطیکہ وہ صحیح مذہب ہو اور اس مذہب سے بڑی سچائی کوئی نہیں ۔“ (۱۵/اپریل) پنجابی زبان کے حوالے سے ہیر رانجھا اور سسی پنوں کے قصوں کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ محض افسانوی قصے ہیں ۔ ان میں زبان کااسلوب بے شک متاثر کن ہوسکتاہے، مگر ان قصوں کی بنیاد کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ صوفیا نے جن خیالات کو شاعری میں پیش کیا، اس کی تہہ میں بھی ان کے مخصوص مذہبی تصورات کارفرما ہیں ، پنجابیت کا فروغ فی نفسہ ان کا مقصود کبھی نہیں رہا۔ لسانی تعصب میں مبتلا ان حضرات کا دماغی خلل ہے جو انہیں پنجابیت میں بھی کوئی آئیڈیالوجی دکھاتا ہے۔ ۲۔مسلمانوں سے پنجابی سکھوں کی دشمنی سے بھری تاریخ: پنجاب کے سکھوں اور مسلمانوں میں جزوی حد تک لسانی اشتراک و وحدت ضرور پائی جاتی ہے، مگر یہ کوئی ایسی زبردست قوتِ رابطہ نہیں ہے کہ وہ ان قوموں کے مختلف کثیرالتعداد اجزا کو قومیت کے تعلق سے اس طرح پیوستہ و بستہ کردے کہ وہ سب ایک ٹھوس چٹان بن جائیں ۔ محض لسانی وحدت ان کے دل ودماغ کو اس طرح متاثر نہیں کرسکتی کہ وہ متحد و یکجا ہو کر ہر قربانی کے لئے تیار ہوجائیں ۔ پنجابیت کا لغو پراپیگنڈہ کرنے والے تاریخی حقائق کو یکسر نظر انداز کرنے کا رجحان رکھتے ہیں ۔ سکھ اپنی مختصر قومی تاریخ کے دوران مسلمانوں کے ساتھ عام طور پر متحارب، متصادم اور متخالف ہی رہے ہیں ۔ سکھ بحیثیت ایک سیاسی گروہ کے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کے لئے ہمیشہ مسائل پیدا کرتے رہے ہیں ۔ مغل بادشاہ نو رالدین جہانگیر کے دور میں اسی تصادم کے نتیجے میں سکھوں کا گرو گوروبند سنگھ قتل ہوا۔ ا س کے بعد سکھوں نے مغلوں کو دل سے کبھی قبول نہ کیا، آئے دن فساد برپا کرتے رہے، راجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر قبضہ مسلمانوں کوشکست دینے کے بعد ہی کیا۔ سکھ دورِ حکومت میں پنجاب کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاکردی گئی۔ مسلمان زمینداروں سے زمینیں چھین کر سکھوں کو دے دی گئیں ۔بادشاہی مسجدلاہور سے قیمتی سنگ مرمر اُکھاڑ کر امرتسر لے جایا گیا۔ ملکہ نور جہاں ، آصف خان اور جہانگیر کے مقبروں سے قیمتی پتھر اتار کر امرتسر پہنچایا گیا۔ مسلمانوں کے لئے جب زندہ رہنا دوبھر کردیاگیا، تو سید احمدشہید اور شاہ اسمٰعیل شہید نے سکھوں کے خلاف اعلانِ جہاد کردیا۔ ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی معرکہ ہوا جس میں سید احمد،شاہ اسمٰعیل اور ان کی جماعت کے ہزاروں افراد نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ۱۸۴۳ء میں جب انگریزوں نے
Flag Counter