Maktaba Wahhabi

67 - 86
”آپ نے کبھی یہ نہ فرمایا کہ ”ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو“ یا ”قوم پر خدا کا ہاتھ ہے“ بلکہ ایسے مواقع پر آپ جماعت ہی کا لفظ استعال فرماتے تھے۔ ا س کی وجہ صرف یہ ہے اور یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لئے ’قوم‘ کے بجائے جماعت کے اَلفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں ۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً استعمال ہوتا ہے، ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اُصول کا پیرو ہو، ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے جب کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو اور اپنے نام، طرزِ زندگی، اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو، لیکن پارٹی، جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ، ان کے لحاظ سے اُصول اور مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔“ (ایضاً: صفحہ ۱۰۷) مگر مسلمان ’قوم‘ کا لفظ جن معنوں میں آج کل استعمال کرتے ہیں ، اس پرافسوس کا اظہار کرنے کے باوجود مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اعتراف کرتے ہیں : ” رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کوبھولتے چلے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی (ملت) ہیں اور پارٹی ہونے (یعنی ایک مشترکہ مذہب رکھنے) کی حیثیت پر ہی ان کی قومیت کی اَساس رکھی گئی ہے۔یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیاہے کہ پارٹی کا تصور قومیت کے تصور میں بالکل ہی گم ہوگیا۔ مسلمان اب صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں ۔“ (ایضاً: صفحہ ۱۰۸) خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک قوم کی بجائے ملت یاجماعت بننا چاہئے یعنی ان کے تعلق کی بنیاد وطن، نسل یا زبان کی بجائے مذہب ہی ہونا چاہئے او رزبان وطن کے تعصبات سے برتر ہو کر مشترکہ مذہب کی بنا پر تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکنے چاہئیں ۔ ان کے وطنی (قومی) مفادات پرملی (دینی) مفادات غالب رہنے چاہئیں ۔ تمام دنیا کے مسلمان اس ملی رشتے میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی بات یوں کہی ہے : فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں ! موج ہے اندرونِ دریا، بیرونِ دریا کچھ نہیں ! پنجابی کانفرنس میں پیش کردہ نظریات کا ناقدانہ جائزہ پنجابی زبان و ادب کے نام پر فتنہ پرور کانفرنس میں دیئے گئے بیانات کے بارے میں ہماری معروضات درج ذیل ہیں : ۱۔اجتماعیت کی قوی بنیاد زبان ہے یا مذہب؟ : زبان اظہار کا وسیلہ ہے، یہ فی نفسہ کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ الفاظ نظریات کے لئے لبادہ کا کام کرتے ہیں ۔ دنیا کی کسی بھی زبان کی بنیاد پر کوئی آئیڈیالوجی آج تک پیش نہیں کی گئی۔ زبان کا اشتراک جزوی اعتبار سے ایک اجتماعیتکو پروان چڑھانے میں کردار ضرور ادا کرتا ہے، مگر جہاں فکری اشتراک نہ ہو، وہاں لسانی اشتراک ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ جب نظام یا آئیڈیالوجی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد مختلف افکار کا ایک مربوط و منضبط سلسلہ ہوتا ہے جس میں استدلا ل کی کڑیاں پیوست ہوتی ہیں ۔ اسلام ایک آئیڈیالوجی ہے، یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں راہنمائی عطا کرتا ہے۔ نظریہٴ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہے، اس کی مذہبی، ثقافتی، سیاسی جہات بالکل واضح ہیں ، سوشلزم بھی ایک
Flag Counter