اپنی ’ذات‘ یا برادری بتاتا ہے۔ مثلاً گیلانی، لغاری، کھوسہ، کھر وغیرہ۔ صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں ’قوم‘ سے مراد قبیلہ ہی لیا جاتا ہے۔ خوانین کے بارے میں وہاں کہا جاتاہے: ”یہ فلاں قوم کے سردار ہیں ۔‘‘ تحریک ِپاکستان کے دوران دو قومی نظریہ کے الفاظ عوامی معنوں میں استعمال کئے گئے۔ لیکن قرآنی اصطلاح کی رو سے دیکھا جائے تو دوقومی نظریہ کو ’دو ملی نظریہ‘ ہونا چاہئے۔اسی لئے بعض افراد کے ذہن میں اس کے حقیقی مفہوم کے متعلق ’کنفیوژن‘ پائی جاتی تھی۔ ’دوقومی نظریہ‘ کی بجائے ”دو ملی نظریہ“ کی ترکیب استعمال کی جاتی، تو ابہام پیدا نہ ہوتا۔ قوم اور ملت کے درمیان فرق کی ایک توجیہ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ قوم کا لفظ بول کر مطلوبہ معنی تک ذہن فوری منتقل ہوجاتا ہے جبکہ ملت کا لفظ عوام میں اس قدر وسیع پیمانے پرسمجھا نہیں جاتا۔ چنانچہ اہل علم کے درمیان تو ہر دو الفاظ کے حقیقی معانی کے پیش نظر فرق کیا جانا چاہئے لیکن عوام الناس سے اس فرق کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ بہر حال نظریات اور نعروں میں بھی اہل علم کو قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ اُمّت:دوسرا لفظ جو جماعت کا مترادف ہے، ’اُمت‘ ہے، قرآنِ مجید اور احادیث میں یہ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ” اُمت اس جماعت کوکہتے ہیں جس کو کسی امر جامع نے مجتمع کیاہو، جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک ہو، ان کو اسی اصل کے لحاظ سے ’اُمت‘ کہا جاتا ہے۔مثلاً ایک زمانہ کے لوگ بھی ’امت‘ کہے جاتے ہیں ۔ ایک نسل یا ایک ملک کے لوگ بھی ’اُمت‘ کہے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کو جس اصل مشترک کی بنا پر اُمت کہا گیاہے وہ نسل یا وطن، یا معاشی اغراض نہیں ہیں وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اُصول اور مسلک ہے۔چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ کُنْتُمْ خَيْرَ أمَّةٍ أخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوٴمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ﴾ (آلِ عمران:۱۲) ”تم وہ بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لئے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو، اور خدا پرایمان رکھتے ہو۔“ سورہ بقرہ میں فرمایا: ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أمَّةً وَّسَطًا لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُوْنُ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا ﴾ ”اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی اُمت (اُمت ِوسطاً) بنایا ہے تاکہ تم نوعِ انسانی پر نگران ہو اور رسول تم پر نگران ہو۔“ مولانا مودودی ان آیات کی تشریح میں فرماتے ہیں : ”بیچ کی اُمت‘ سے مراد یہ ہے کہ ’مسلمان‘ ایک بین الاقوامی جماعت کا نام ہے۔ دنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکالا گیا ہے جو ایک خاص اصول کو ماننے، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کیلئے تیار ہوں ۔یہ لوگ چونکہ ہر قسم سے نکلے ہیں اور ایک پارٹی کے بن جانے کے بعد کسی قوم سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے، اسی لئے یہ ’بیچ کی اُمت ‘ہیں ۔“ (مسئلہ قومیت: ص ۱۰۶) جماعت : مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے نبی کریم نے جو تیسرا اصطلاحی لفظ کثرت سے استعمال کیا ہے وہ لفظ ’جماعت‘ ہے۔ آپ کا اِرشاد ہے: علیکم بالجماعة ”جماعت کو لازم پکڑو“ (سنن ترمذی :حدیث ۲۰۹۱) یا فرمایا: يد اللّٰه علی الجماعة ” اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہے۔“ (سنن نسائی، حدیث ۳۹۵۴) ان احادیث کا ذکر کرنے کے بعد مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ وضاحت کرتے ہیں : |