Maktaba Wahhabi

65 - 86
”پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اورقریب ترین رشتہ داروں کے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشیطان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرے گا، اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے: ﴿لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُّوٴمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ يُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْ کَانُوْا أبَاوٴُهُمْ أوْ اَبْنَاوٴهُمْ أوْ اِخْوَانُهُمْ أوْ عَشِيْرَتُهُمْ … اُوْلٰئِکَ حِزْبَ اللّٰهِ ، ألاَ إنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ (المجادلہ:۲۲) ”تم ہرگز نہ پاؤ گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یوم آخرت پرایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور رسول کی دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ اللہ کی پارٹی (حزب اللہ) کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ آخر کار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔“ ملت: قرآن کریم نے جہاں ’قوم‘ کا لفظ عمومی معنوں میں استعمال کیا ہے، اور بقول مولانامودودی اسلامی تصورِ اجتماعکو ’قوم‘ کی بجائے ’حزب‘ سے تعبیر کیا ہے ، وہاں ایک لفظ اس سے بھی زیادہ واضح قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور وہ لفظ ہے ’ملت‘… قرآن کی رو سے ’ملت‘ اور ’قوم‘ میں فرق ہے۔ ’ملت ِاسلامیہ‘ کا لفظ ’مسلمان قوم‘ سے زیادہ جامع ہے کیونکہ قوم کا لفظدیگر اقوام کے ہاں مخصوصمعنی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔قرآنِ مجید میں مختلف انبیاے کرام کے حالات کے ضمن میں لفظ ’قوم‘ اور ’ملت‘ کئی مقامات پر آیا ہے جس سے ان دونوں کے فرق پر روشنی پڑتی ہے۔سورة الاعراف کی آیت ۸۸ میں حضرت شعیب علیہ السلام کاذکر ان الفاظ میں ملتا ہے: ﴿قَالَ الْمَلأ الَّذِيْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّکَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْيَتِنَا أوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ أوْ لُوْ کُنَّا کَارِهِيْنَ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا إنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ إذْ نَجّٰنَا اللّٰهُ مِنْهَا ﴾ ” قومِ شعیب کے متکبر سرداروں نے کہا: شعیب علیہ السلام ! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ، اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر تمہیں ہماری ’ملت‘ میں واپس آنا ہوگا۔ شعیب علیہ السلام نے کہا: ”خواہ ہم اسے ناپسند کرتے ہوں تو بھی؟ اگر ہم تمہاری ’ملت‘ میں دوبارہ چلے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔“ اس آیت میں ’قوم‘ اور ’ملت‘ کے الفاظ ایک جملے میں لیکن مختلف معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔’قوم‘ سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلے کے وہ لوگ ہیں جو ان کی بستی میں رہائش رکھتے تھے اور ان کی زبان، نسل اورعادات مشترک تھیں پھر قرآن کہتا ہے کہ حضرت شعیب کی قوم نے انہیں اپنی ملت میں واپس لانے کے لئے دباؤ ڈالا، اس سے پتہ چلتا کہ ملت کا تصور قوم سے وسیع تر ہے اور اس میں اشتراکِ مذہبی کا عنصر بھی شامل ہے چنانچہ ملت سے مراد ’دین‘ یا ’مذہب‘ ہے۔اسی لئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ یہاں ’دین‘ ہی کیا ہے۔ الغرض قوم کا لفظ اشتراکِ نسل، زبان اور وطن کے لئے تو بولا جاتا ہے۔ اس میں مذہب کو کوئی دخل نہیں جبکہ ملت کے لفظ میں مذہبی اشتراک بھی شامل ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں آج بھی ’قوم‘ کا مطلب وہی لیا جاتا ہے جو قدیم عرب معاشرے میں مستعمل تھا۔ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں مثلاً پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں ایک اجنبی شخص جب کسی دوسرے اجنبی شخص سے ملتا ہے تو عام طور پر اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے: ”تم کس قوم سے ہو؟“ ا س کے جواب میں دوسرا شخص
Flag Counter