Maktaba Wahhabi

64 - 86
باہو کی بات کرتے ہیں ۔ اگر انہیں صوفیاکی زبان پسند نہیں تو پھر یہ لوگ پنجاب میں کیوں رہ رہے ہیں ، یہاں سے نکل جائیں ۔ اگر یہ نہیں نکلتے تو ہم انہیں دھکے دے کرنکال دیں گے۔ اُردو والے سن لیں ، اب لاہور میں لکھنوٴ کا پان کلچر نہیں چلے گا۔ فخرزماں نے کہا: اب پنجاب والوں نے شناخت کے بحران پر قابو پالیا ہے۔ آمدورفت بڑھے، ویزے کی پابندیاں نرم ہوں تو ہم سانجھ کا کلچر مل کر سنبھالیں ۔‘‘ (خبریں ، نوائے وقت، جنگ، انصاف) قارئین کرام! ہم نے کوشش کی ہے کہ نام نہاد پنجابی کانفرنس کے شرکا کی ہرزہ سرائیوں اور خرافات کو یکجا کردیں ۔ یہ تلخیص ہے محض ان بیانات کی جو اخبارات میں شائع ہوئے۔ اصل تقاریر میں یقینا اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا گیا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ اسلام دشمن دانش بازوں کی ہفواتِ مسلسل کامفصل تجزیہ کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تصور اجتماع کی طرف کچھ اشارہ کردیا جائے۔تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ پنجابی کانفرنس کے دوران جس مسخ شدہ پنجابیت کاتصور پیش کیا گیا، وہ اسلام کے فلسفہ اجتماعی اور نظریہٴ پاکستان سے کس طرح متصادم ہے۔ اسلامی تصورِ اجتماع … قوم، ملت، جماعت اور حزب قوم: انگریزی زبان میں ’قوم‘ کا ہم معنی لفظ Nation ہے اور قومیت کے لئے Nationality کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ مغرب میں قوم اور قومیت کی تشکیل کے لئے رنگ و نسل، زبان کے اشتراک کو ہی ضروری خیال کیا جاتاہے ، وہاں مذہب فی نفسہ قومیت کی بنیاد نہیں سمجھا جاتا۔ یورپی اقوام کا مشترکہ مذہب عیسائیت ہے، مگر اختلافِ زبان و وطن نے انہیں الگ الگ قوموں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ چونکہ اسلام نے بھی ان مادّی رشتوں پر مبنی قوم کے تصور کو مسترد کردیا، اسی لئے قرآن و حدیث میں لفظ ’قوم‘ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلہ کے لوگوں پر بولا جاتا تھا، اسی طرح آج بھی لفظ ’نیشن‘ کے مفہوم میں مشترکہ جنسیت (Common Descent) کا تصور لازمی طور پر شامل ہے اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصورِ اجتماع کے خلاف ہے، اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعوب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لئے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جمعیت کے لئے استعمال کیا ہے، وہ ’حزب‘ ہے۔ جس کے معنی ’پارٹی‘ کے ہیں ۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اٹھتی ہیں اور پارٹیاں اُصول و مسلک کی بنیاد پر۔ اس لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں بلکہ ایک پارٹی ہیں … قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے۔ ایک اللہ کی پارٹی (حزب اللہ)، دوسرے شیطان کی پارٹی (حزب الشیطان)۔ شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اُصول ومسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلاف ہوں ، قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے۔قرآن کہتاہے : ﴿اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَاَنْسٰهُمْ ذِکْرَ اللّٰهِ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ألاَ إنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ (المجادلہ:۱۹) ”شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انہیں غافل کردیا۔ وہ شیطان کی پارٹی (حزبِ شیطان) کے لوگ ہیں اور جان رکھو شیطان کی پارٹی آخر کار نامراد ہی رہنے والی ہے۔“ ( مسئلہ قومیت: صفحہ ۱۰۳) ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
Flag Counter