کے اجلاسوں کے دوران تلاوتِ قرآن پاک نہ کرنے پراعتراض کیا۔ (نوائے وقت، انصاف، جنگ، خبریں ) (۷) اداکار شجاعت ہاشمی نے کمپیئر نگ کرتے ہوئے ایک مقرر کو دعوت دینے کے موقع پر کہا کہ ”اگر میں ان کا صحیح نام نہ لے سکا تو اس میں میرا قصور نہیں ہے بلکہ یہ قصور اس سرحد کا ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کررکھا ہے۔‘‘ اس ڈرامہ باز نے سکھوں کو خوش کرنے کے لئے یہ دروغ گوئی بھی کی: ” ایک ڈرامے میں سکھ کا کردار ادا کرنے پر پاکستانی پنجابیوں نے اسے زندہ جلانے کی دھمکیاں دیں مگر وہ ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہ ہوا۔“ (نوائے وقت، انصاف) (۸) مارکس گزیدہ احمدبشیر نے بھارت سے اپنی محبت کا یوں اعتراف کیا: ” میرے اندر تھوڑا سا انڈیا ہے۔“ (جنگ ۱۵/اپریل) …یہ تو ابھی تھوڑا سا انڈیا ہے، اگر کچھ زیادہ انڈیا ان کے اندر ہوتا تو نجانے کیا غضب ڈھاتے۔ (۹) اشتراکی عبداللہ ملک جو مجاہدین سے سخت کدورت رکھتے ہیں ، نے کہا : ”پنجابیت اور انسانیت میں کوئی فرق نہیں ۔ اس طرح ادھر جہادی ہیں تو ادھر بھی ایڈوانی ہیں ۔ پاک بھارت تصادم میں ادھر بھی پنجابی مرتا ہے، ادھر بھی پنجابی مرتا ہے۔ آپ بھی اپنے جنونیوں اور جہادیوں پر دباؤ ڈالیں ، ہم بھی اپنے جنونی جہادیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔“ (جنگ) (۱۰) تاریخ کی مادّی تعبیر کا پرچار کرنیوالے بائیں بازو کے موٴرخ ڈاکٹر مبارک علی نے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ نہیں ہونا چاہئے۔“ (انصاف) (۱۱) سید افضل حیدر ایڈووکیٹ نے اپنے سیکولر افکار کا پرچار کرتے ہوئے پنجابی کانفرنس کے دوسرے روز کے اجلاس میں کہا: ” دھرتی کا کوئی مذہب نہیں ، پاکستان بننے کے بعد ہمیں بہت گالیاں پڑیں ۔“ افضل حیدر نے اپنی دانشوری بکھیرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا: ”۲۱/ مارچ سے لے کر ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء تک یہاں کوئی حکومت نہیں بنی جس سے پنجاب کے ٹکڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا: اصل میں زبان ہی دھرتی کا دھرم ہوتی ہے۔ “ (خبریں ۱۶/اپریل) (۱۲) پنجابی کانفرنس میں سب سے زیادہ قابل اعتراض، گھٹیا، مضحکہ خیز اور مجنونانہ بیانات اس کانفرنس کے کنوینر فخرزماں نے ہی دیئے۔ فخرزماں نے مختلف اجلاسوں میں اپنے پراگندہ ذہنیت کا جس طرح بھونڈے انداز میں اظہار کیا، اس کا خلاصہ یوں ہے: ” جو بھی پنجاب میں رہتے ہوئے پنجابی کلچر کی مخالفت کرے گا، اسے پنجاب میں نہیں رہنے دیں گے۔ اگر کسی بھی اہل زبان اردو بولنے والے نے پنجاب میں رہتے ہوئے پنجابی زبان کی مخالفت کی تو وہ سمجھ لے کہ اسے پنجاب میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ انہوں نے کہا: ہم کس قسم کے پنجابی ہیں جو گھروں میں بچوں سے اُردو بولتے ہیں ۔ ہم پنجابی کی مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن گروپ) اور دوسرے مولویوں سے مقابلہ کریں گے۔ مخالفوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے۔ اختتامی اجلاس میں فخر زماں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا کہ ہم مولویوں کو اس حد تک برداشت کرسکتے ہیں کہ وہ جمعرات کی روٹیاں کھائیں یا جنازے پڑھائیں ۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ فیصد اُردو بولنے والے اس دھرتی کے سپوت نہیں ہیں ۔ فخر زماں نے کہا کہ میں پنجاب کا الطاف حسین ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی زبان اور کلچر کا حق مانگتے ہیں تو اس سے نظریہٴ پاکستان کی مخالفت کیسے ہوگی۔ ہم رواداری اور انسان دوستی والے بلھے شاہ اور سلطان |