پنجابیوں کو طعنہ دیا کہ جرمنوں نے دیوارِ برلن گرا دی، لیکن پنجابی یہ دیوار نہیں گراسکے۔ (روزنامہ انصاف، نوائے وقت، تکبیر) (۳) متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر منجیت سنگھ نے تجویز پیش کی کہ بھارت اور پاکستان کے پنجابی علاقوں میں ویزا کی پابندی ختم کردینی چاہئے۔ (تکبیر) (۴) بھارتی شاعر سنتوش سنگھ دھیرا نے اپنی پنجابی نظم میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ سے پنجابی مرتے ہیں ، لہٰذا یہ جنگیں نہیں ہونی چاہئیں ۔ (تکبیر:۲۵/ اپریل ) (۵) بھارتی اداکار اور پارلیمنٹ کے رکن راج ببر نے کہا کہ مذہب یا عقیدہ ایک دوسرے کی پہچان نہیں ہوتے بلکہ زبان ہوتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ میں جب لکھنوٴ جاتاہوں تو ویزا نہیں لینا پڑتا، جب مالیر کوٹلہ جاتا ہوں تو مجھے ویزا نہیں لینا پڑا لیکن جب میں لاہور آتا ہوں تو مجھے ویزا کیوں لینا پڑتا ہے؟ آج ہم یہ فیصلہ کرکے اٹھیں کہ ہمیں تمام دیواریں گرا دینی ہیں ۔ (تکبیرصفحہ ۲۲) بھارتی مقررین کے ان زہریلے خیالات کے بعد پاکستانی ’دانشوروں ‘ کے ارشادات ملاحظہ کیجئے : (۱) سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر اعظم پاکستان ملک معراج خالد نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان اور بھارت دو ملک بن چکے ہیں ، مگر پنجابیوں کے دلوں میں کوئی دیوار نہیں ہے۔“ (نوائے وقت، ۱۵/ اپریل) (۲) اشتراکی ٹولے کی اہم خاتون رکن افضل توصیف، جولاہور کے ایک کالج میں پڑھاتی ہیں اور کالم نگاری کا شوق بھی رکھتی ہیں ، کانفرنس میں خوب چہکیں۔ اسی اشتراکی بلبل کی نواسنجی ملاحظہ فرمائیے: ”۱۹۴۷ء کی تقسیم دراصل پنجاب کی تقسیم تھی، یہ پنجاب کی دھرتی کا قتل تھا، جس پر پنجاب کی عورت نے بین کئے۔ اس تقسیم نے پانی کو تقسیم کیا جس کی وجہ سے آج پنجاب کے دریاؤں راوی اور ستلج میں پانی ختم ہوگیا، آج پنجاب کا عام آدمی خوشحالی چاہتا ہے جبکہ حکمرانوں کی بقا جنگوں میں ہے۔ ایٹمی دھماکے نہ صرف افسوسناک تھے بلکہ یہ موت کے پیغام پر رقص کے مترادف تھے۔ (کالم حق سچ، نوائے وقت ۱۷/ اپریل) (۳) اشتراکی میکدے کے ایک اور بے نور دماغ جسے پاکستان کے بن جانے کانہایت قلق ہے، کانفرنس میں یوں ’ارشاد‘فرماتے ہوئے سنے گئے: ” دودھ کی بہتی دھاریں مشترکہ ہوتی ہیں ۔ دین دھرم کے نام پر ہمارا جسم کاٹ دیا گیا لیکن تم کب تک تاروں کی باڑ لگا کر ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھو گے؟“ بھارتی ہندوؤں کے فراق کے صدمہ میں گھائل اس نامعقول شخص کا نام انجم سلیمی رپورٹ ہوا جو فیصل آباد سے وارد ہوا تھا۔ (تکبیر) (۴) کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک مقرر بابا نجمی نے اپنے دل کا نوحہ یوں بیان کیا: ”گولیاں چلا چلا کر ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا گیا۔“ (تکبیر) (۵) کانفرنس کے ایک اجلاس میں سٹیج سیکرٹری جنید اکرام نے شاعرہ ایم زیڈ کنول کا مذاق اُڑاتے ہوتے کہا: ”اس نے صبح سے اُردو بول بول کر مجھے پریشان کررکھا ہے۔“ (۶) اَرذل العمر کو پہنچے ہوئے اشتراکی بڈھے حمید اختر نے قرآنِ مجید کے خلاف اپنے خبث باطن کا اظہار یوں کیا: ” پاکستان قرآن کی تلاوت کے لئے نہیں ، ترقی کے لئے بنا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے دور میں قانون ساز اسمبلی کے کسی بھی اجلاس میں تلاوتِ قرآن پاک نہیں کی گئی۔“ یاد رہے حمیداختر نے یہ ہفواتی کلمات اس وقت کہے جب کانفرنس کے کسی شریک فرد نے پنجابی کانفرنس |