فتنہٴ لسانیت محمدعطاء اللہ صدیقی پنجابیت، اسلامی قومیت اور پاکستان فکری سرطان میں مبتلا پاکستانی دانش باز اسلام اور پاکستان کے خلاف اپنے خبث ِباطن کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ۱۳/ اپریل اور ۱۶/ اپریل ۲۰۰۱ء کے دوران لاہور میں منعقدہ چار روزہ عالمی پنچابی کانفرنس کی جو تفصیلات قومی پریس میں شائع ہوئی ہیں ، اس سے یہ نتیجہ اَخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ کانفرنس یہود وہنود لابی کی پاکستان کے خلاف مذموم سرگرمیوں کا تسلسل تھی۔ پنجابی زبان و ادب کے پردے میں نظریہٴ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے لئے اس کانفرنس کو مارکسی پہلوانوں نے اکھاڑے کے طور پر استعمال کیا۔ کانفرنس کا ایجنڈا ہر اعتبار سے سیاسی نوعیت کا تھا۔ اگرچہ ورلڈ پنجابی فاؤنڈیشن نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا مگر اس کے کرتا دھرتا اور روح رواں پاک انڈیا فرینڈ شپ، عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن اور دیگر این جی اوز تھیں جوگذشتہ ایک برس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’امن‘ کے قیام کے امریکی ایجنڈے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہیں ۔ پاکستان کی طرف سے اس کانفرنس کے منتظمین میں اشتراکی دانش بازوں کا وہ گروہ پیش پیش رہا جو نظریہٴ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو اپنی ترقی پسندی اور ’روشن خیالی‘ کے اظہار کے لئے بوجہ ناگزیر سمجھتا ہے۔ فخرزمان جوپنجابی ورلڈ فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین بھی ہیں ، گذشتہ ایک برس سے اس کانفرنس کے انتظامات کو آخری شکل دینے میں لگے ہوئے تھے۔ عبداللہ ملک جو اشتراکیت کے متعلق وفاداری بشرطِ استواری کے مسلک پر یقین رکھتے ہیں ، فخر زمان کے دست و بازو بنے رہے۔ معراج خالد، حمیداختر، افضل توصیف، طاہرہ مظہر علی اور عاصمہ جہانگیر نے اس کانفرنس کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ کانفرنس پاکستان دشمن بائیں بازو کے دانش بازوں کا ایک شو تھا جسے انہوں نے اپنے انتہا پسندانہ خیالات کے اظہار کے لئے بھرپور استعمال کیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ انڈیا، کینیڈا، انگلینڈ اور دیگر ممالک سے سکھ اور ہندو مندوبین بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ پنجابی زبان و ادب کے نام پر ہونے والی اس کانفرنس کے مقررین نے جن خیالات کا ا ظہار کیا، اس کی بعض تفصیلات درج ذیل ہیں : (۱) کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں بھارتی وفد کے سربراہ سردار ستینڈرسنگھ نور نے کہا کہ پنجابیت کی حیثیت ایک آئیڈیالوجی کی ہے۔ پنجابیت مذہب سے بڑی سچائی ہے۔ ہم پہلے پنجابی ہیں ، بعد میں ہندو، مسلمان اور سکھ ۔(روزنامہ انصاف، نوائے وقت) ہم سارے پنجابیت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ملک بنانے کی وجوہات اور اختیار عوام کے پاس نہیں ہوتے، ملک دو بن جاتے ہیں مگر پنجابیوں کے درمیان کوئی دیوارِ برلن نہیں ۔ (جنگ) (۲) بھارتی خاتون ہر جندر کور اور چند دیگر مقررین نے کہا کہ تقسیم کی دیوار کو گرانا چاہئے۔ ایک مقرر نے |