کے نام سے ہی یادکیا کرتے تھے۔ درمیانہ قد، اُٹھا ہوا ورزشی جسم، سعادت کے نور سے روشن کشادہ پیشانی، درمیانی سفید داڑھی، سفیدی مائل گندمی رنگ، چوڑا چہرہ، ذہانت کی لو سے چمکتی ہوئی خوبصورت آنکھیں ، گندمی ہونٹ، باوقار اور وجیہ شخصیت، پروقار چال ڈھال کے مالک مولانا محمد عبداللہ مرحوم تھے۔ مولانا محترم ایامِ شباب میں پہلوانی کرتے رہے ہیں ، ورزش ان کامعمول ہوا کرتا تھا، خوراک کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے، اسی وجہ سے وہ مضبوط اور گٹھے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ آخری ایام تک مضبوطی جسم کا یہی حال تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حدیث نبوی: ”الموٴمن القوي خير من الموٴمن الضعيف“ کا مصداق تھے۔ بلند علمی مرتبہ کی وجہ سے عالمانہ شان اور وقار بھی رکھتے تھے۔ محترم مولانا عبدالرشید راشد، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے استادِ گرامی بیان فرماتے ہیں : ”ہمچند ماہ قبل شیخ عبداللہ صالح العبید (ریاض،سعودیہ) کی معیت میں مولانامرحوم سے بغرضِ زیارت ملنے کے لئے گئے۔ مولانا سخت علالت کی وجہ سے زبان کو حرکت تو نہ دے سکتے تھے، البتہ ہوش و حواس قائم تھے، جب میرے سے مصافحہ کیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں صاحب ِفراش سے نہیں بلکہ کسی مضبوط شخصیت سے مصافحہ کر رہا ہوں ۔ مصافحہ اتنا جاندار تھا کہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی سے ہاتھ ملایا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جوانی میں پہلوانی کرتے رہے تھے۔“ تعلیم و تعلّم مولانا موصوف نے ۱۹۳۳ء میں مقامی گورنمنٹ سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا، پھردینی تعلیم کی طرف رغبت کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ، چوک اہلحدیث، گوجرانوالہ میں داخلہ لیا۔ اسی مدرسہ سے دینی تعلیم عرصہ آٹھ سال میں مکمل کرکے ۱۹۴۱ء میں سند ِفراغت حاصل کی۔ دورانِ تعلیم سے ہی وہ خطابت میں دلچسپی رکھتے تھے اور گاہے بگاہے منبر خطابت پر اپنے جوہر دکھاتے رہتے تھے۔لیکن ۱۹۴۲ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد مستقلاً تدریس اور خطابت کا آغاز کیا۔ مدرسہٴ محمدیہ چوک اہلحدیث میں تدریس کا آغاز کیا تو اس وقت یہاں حضرت حافظ محمدگوندلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی کرسی ٴتدریس پر متمکن تھے۔ دوسری طرف جامع مسجد دال بازار، گوجرانوالہ میں انہوں نے درسِ قرآن اور خطابت کا سلسلہ شروع کردیا جو حضرت مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات (۱۹۶۸ء)تک جاری رہا۔ بعد ازاں گوجرانوالہ کی جماعت اہلحدیث نے انہیں مولانا اسماعیل سلفی کا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ تقریباً دس سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔ دال بازار کی جامع مسجد پر محکمہ اوقاف کے قبضہ کے بعد بوجوہ انہیں کوئٹہ جانا پڑا جہاں سے انہوں نے محکمہ اوقاف کی کوئٹہ اکیڈیمی سے فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں منشی فاضل اور مولوی فاضل |