بہت بلند تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم نے جواب دیا کہ ہم بھی اس شخص کی خبر واحد کو حجت مانتے ہیں جو ثقہ اور معتبر ہو، غیر ثقہ روایت کو تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس کے بعد مولانا اصلاحی صاحب خاموش ہوگئے او رکچھ نہ بولے۔ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان: ص ۳۸۱) (۳) جامعہ اشرفیہ لاہور کا واقعہ: ایک تیسرا واقعہ نہایت اہم ہے وہ یہ کہ مولانا چند رفقا کے ساتھ لاہور جامعہ اشرفیہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر پہلے جامعہ کے کمرے دیکھے، پھر مینار چڑھے، مینار بہت شاندار او رکمرے بڑے خوبصورت پائے، جب مسجد سے باہرنکلنے لگے تو حوض سے متصل ایک کتبہ پر نظر پڑی، جس پرنمایاں حروف میں شیخ الفقہ لکھا ہوا تھا۔ جب مولانا وہاں سے گزرنے لگے تو ایک کلاس فارغ ہو کر کمرہ سے نکل رہی تھی اور دوسری کلاس ا س کی جگہ لے رہی تھی، دیکھا تو کلا س میں ایک بز رگ بیٹھے ہیں جوطلبا کو پڑھاتے تھے۔ مولانا کے دل میں خیال گزرا کہ چند ساعتیں شیخ الفقہ کے حلقہ سبق میں بیٹھ کر ہم بھی مستفید ہولیں ، رفقا کو ساتھ لیا او ربیٹھ گئے۔ ایک طالب علم نے ’کنز‘ نامی کتاب کھول کر باب الرضاعة نکالا اور عبارت پڑھی۔ اب شیخ الفقہ نے تقریر شروع کی اورکہا مدتِ رضاعت میں اختلاف ہے، مدتِ رضاعت کا مطلب ہے کہ کتنی مدت ماں اپنے بچہ کو دودھ پلا سکتی ہے اور اس مدت میں جو بچہ اس عورت کا دودھ پی لے وہ اس کا رضاعی بیٹا یا بیٹی بنتے ہیں ۔ شیخ الفقہ نے فرمایا: امام شافعی فرماتے ہیں ، دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں ، اڑھائی سال ہے۔ اس پر مولانا نے اعتراض کیا کہ شیخ صاحب ان دو جلیل القدرائمہ میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ کیا یہ مسئلہ قرآن میں نہیں ہے کہ دونوں اِمام متفق ہوجاتے اور اختلاف سے بچ جاتے۔ یہ سوال سن کر شیخ چونک اٹھے۔ اورپوچھنے لگے: تمہارا گھر کہاں ہے؟ مولانا موصوف فرمانے لگے: ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں ۔ شیخ نے پھر پوچھا: یہاں کیا لینے آئے ہو؟ عرض کیا یہاں ماڈل ٹاؤن میں کسی عزیز کے ہاں تعزیت کے لئے آئے تھے۔ آج واپسی کی اجازت نہ ملی تو سوچا جامعہ اشرفیہ ہی دیکھ لیں ۔ یہاں پہنچے تو آپ کا کتبہ دیکھا، کلاس دیکھی، سوچا آپ سے مستفید ہولیں ۔ پھر شیخ الفقہ نے سوال کیا: آپ کا مسلک کیا ہے؟ فرمایا ہم مسلمان ہیں ۔ اس پر اعتراض ہوا: مسلمان تو سب ہیں ، کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو؟ مولانا نے جواباً فرمایا ہم کسی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ فرقہ پرستی کو اچھا سمجھتے ہیں ہم اول و آخر مسلمان ہیں او راسلام ہی سے ہمیں واسطہ ہے۔اس پر شیخ الفقہ نے فرمایا: بات یہ ہے کہ ائمہ کی نظر ہماری طرح سطحی نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر بڑی دقیق اور نکتہ رس ہوتی ہے۔ اور جہاں ائمہ کی نظر پہنچتی ہے وہاں تک ہماری نظر کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ |