Maktaba Wahhabi

81 - 86
جواب نہیں دے سکتا۔ تو مولانا عبداللہ مرحوم نے فرمایا: اصلاحی صاحب! آپ یہ بتائیے کہ خبر واحد حجت کیوں نہیں ہے؟ اصلاحی صاحب متوجہ ہوئے اور پوچھا :آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: ہمارا نظریہ ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ پوچھا: اس پر کوئی دلیل؟ مولانا نے کہا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں علاقہ شام میں جنگ ہورہی تھی ۔ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت میں مسلمان فوجیں پیش قدمی کر رہی تھیں ۔ اطلاع ملی کہ آگے طاعون ہے ، لشکر رُک گیااور پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے، مہاجرین کوجمع کرکے پوچھا کہ کس کومعلوم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طاعون کے متعلق کوئی ارشاد؟ جواب نفی میں ملا، پھر انصارکوجمع کرکے ایسے ہی پوچھا، جواب نفی میں ملا۔ لشکر کو رات آرام کرنے کے لئے کہا گیا، صبح ہونے پر پھر سبھی انصار و مہاجرین کو پوچھا گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے پوچھا کہ خلیفہ کیا با ت ہے؟ بات بتائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مجھے معلوم ہے کہ طاعون کی وبا کے مقام پر نہ کسی کو جانا چاہئے اور نہ وہاں سے کسی کو نکلنا چاہئے۔ چنانچہ لشکر کو حکم مل گیا کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف تمام صحابہ سے تنہا تھے، لہٰذا خبر واحد حجت ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے تسلیم کیا ہے، سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تسلیم کیا ہے، تو آپ کس طرح انکار کرسکتے ہیں ؟ ۔“ اصلاحی صاحب فرمانے لگے کہ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ عمومِ بلویٰ کی صورت میں اگر کوئی مسئلہ ہو اور ایک ہی راوی بیان کرے، تو تب خبر واحد حجت نہیں ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب نے فرمایا: اس پر بھی دلیل موجود ہے۔ اصلاحی صاحب نے پوچھا، بتاؤ کیا حدیث ہے؟ تو مولانا موصوف نے فرمایا: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کچھ لوگ ایک عورت کو پکڑ لائے کہ اس کا نہ نکاح ہوا ہے اور نہ شوہر موجود ہے لیکن یہ حاملہ ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے رجم کا حکم دے دیا۔ راستہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ملے، قصہ کاعلم ہوا تو کہا: اس عورت کو واپس لے چلو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور فرمایا: امیرالموٴمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک حاملہ عورت آئی تھی، اس نے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے رجم کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ تیرے پیٹ میں بچہ ہے۔ وضع حمل کے بعد آنا، جب عورت وضع حمل کے بعد آئی تو فرمایا: ابھی بچہ کودوسال دودھ پلاؤ۔ دو سال دودھ پلانے کے بعد عورت آئی اور مدتِ رضاعت ختم ہونے کی خبر دی تو فرمایا کہ اب اس عورت کورجم کردو۔ چنانچہ رجم کردیا گیا۔“ اس عورت کو رجم کرنے والے بے شمار لوگ تھے اور یہ واقعہ اہل مدینہ کے سامنے رونما ہوا۔ جبکہ بیان کرنے والے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہیں اور یہ خبر واحد ہے۔عمومِ بلویٰ کی صورت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت قبول فرمائی۔ اس پر مولانا اصلاحی فرمانے لگے: اصل بات یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام
Flag Counter