شائع کیا جاتاہے کہ کسی کے ذہن میں غلط خیال جنم نہ لینے پائے۔ رسیدوں کو فائلوں میں محفوظ رکھنا، باقاعدہ چیک کرنا، اخراجات پر کڑی نگاہ رکھنا، مشکوک رسید کی بغیر تحقیق کے منظوری نہ دینا، قوم کے صدقات کو ضرورت سے زیادہ یا بلا ضرورت خرچ کرنا، آمدن کو خفیہ رکھنا یا سالانہ حساب و کتاب سے لوگوں کو آگاہ نہ کرنا، مولانا کے نزدیک سخت معیوب تھا ۔اولاً تو مولانا کسی ہاتھ سے کوئی رقم لیتے ہی نہ تھے، بلکہ انجمن کے سفیر کے ذریعہ سے ہی حاصل کرتے، اگر لے بھی لیتے تو بلاتاخیر رسید کاٹ کر واپس فرماتے، یہی وجہ ہے کہ مولانا پر آج تک کسی بڑے سے بڑے مخالف کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ مولانا مرحوم کی دیانت و امانت پرانگشت نمائی کرسکے۔ (۲) قناعت پسندی: مولانا کی ایک بڑی خوبی ان کی قناعت پسندی ہے۔جماعت نے جو بھی مشاہرہ ان کے لئے مقرر کیا، اسی پر اکتفا کیا۔ حالات کے مدوجزر کے باوجود کسی سے دست سوال دراز نہیں کیا۔ خطباتِ جمعہ یا دیگر خطبات میں باوجود اصرار کے مولانا نے کبھی معاوضہ نہیں لیا۔ موقع بموقع پیسے لینے کی عادت قناعت پسندی کے خلاف تو ہے ہی، مزید اس سے علما کا وقار اور خوداری متاثر ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علما کے احترام میں وہ حقیقی جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے جو ہر دور میں ائمہ اسلاف کی علامت رہاہے۔ قناعت پسندی اور عزتِ نفس کی بقا اسی پر منحصر ہے کہ علما قناعت پسندی اختیار کریں، کسی کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کریں ۔ (۳)تحقیق: آپ کی یہ صفت بھی نمایاں تھی کہ آپ ہرمعاملہ میں چاہے شرعی ہو یا غیر شرعی، تحقیق کے بغیر کوئی رائے یا نظریہ قائم نہ کرتے تھے۔ یقینا تحقیق کے بغیر انسان کی عقل اپاہج اور علم اُدھورا نظر آتا ہے۔ جس شخص میں تحقیق کا مادّہ نہ ہو، وہ نہ تو خود علم سے صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے نہ دوسروں کی درست طور پر رہنمائی کرسکتا ہے۔ صحیح فیصلہ کے لئے تحقیق کے راستہ سے گزرنا ضروری ہوتا ہے، اس سے ذہن کو جلا اور دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تحقیقی رجحان کا یہ حال تھا کہ عام لڑائی جھگڑے کے فیصلے میں بھی معاملات کی پوری چھان بین کیا کرتے۔فریقین کے درمیان تنازعہ شدت پکڑ کران کے سامنے آتا تو دونوں فریقوں کی گفتگو سنے بغیر کبھی فیصلہ صادر نہ کرتے تھے۔ (۴) قول کے ساتھ عمل بھی: حضرت مولانا مرحوم ان بزرگوں میں سے تھے جو بات کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے یعنی قرآن و سنت کا عملی نمونہ تھے۔ ایسا آج تک دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان کانقطہ نظر تو کوئی اور ہو لیکن عمل اس کے خلاف۔ (۵) جامعہ محمدیہ کی دیکھ بھال اورپیدل سفر کرنا: یہ علالت سے پہلے اس دور کی بات ہے جب شیخ |