Maktaba Wahhabi

77 - 86
رکھتے تھے کہ جو بھی سنے گویا خود کو ان حالات و واقعات سے گزرتا محسوس کرے۔ مولانا کے درسِ خطابت میں بڑی خوبی جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ موضوع کے متعلقہ پہلوؤں میں سے کسی پہلو کو تشنہ نہ چھوڑتے تھے۔ کئی اشکالات جو موقع بہ موقع جنم لیتے تھے، ساتھ ساتھ حل ہوتے جاتے۔ چنانچہ مولانا سے کسی نقطہ کی وضاحت یا اعتراض کا جواب لینے کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ ہر درس و خطاب میں ان کی عالمانہ شان موجود ہوا کرتی تھی۔بعض ایسے مسائل جن پر دیگرعلماے کرامکچھ بیان کرنے سے قاصر ہوتے، مولانا صاحب اپنے جواہر کی جولانی دکھاتے تو حلقہ درس میں ہر شخص ہمہ تن گوش ہوجاتا۔ شرعی احکام کی تفصیل، عذابِ قبر کا منظر، اور احوالِ قیامت کے تذکرہ میں دل کی تیز دھڑکنوں کے ساتھ ہر آنکھ آشکبار ہوجاتی۔ کسی بھی واقعہ کا منظر، پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کچھ اس انداز اور ترتیب سے پیش فرماتے کہ پورے واقعہ کا نقشہ اَثرات سمیت دل میں پیوست ہوجاتا۔ اور سامع اپنے دل کی کیفیت باوجود کوشش کے چھپانہیں سکتا تھا۔ آپ کے محترم حافظ عبدالقدوس صاحب (گوجرانوالہ) کے بقول : ”ہم جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں حفظ ِقرآن کرتے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ ایک بزرگانہ وضع قطع کا جواں سال رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو کرغسل کرتا ہے، پھرنمازِ تہجد کے لئے اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہو کر مناجات ہوتی ہے، راز و نیاز کی نہ جانے کیا کیا باتیں ہوتی ہیں ۔ تہجد سے فراغت کے بعد وہ مطالعہ میں مصروف ہوجاتا ہے، اتنے میں نمازِ فجر کا وقت ہوجاتاہے، نماز فجر کے بعد وہ درس دینے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں تو راز منکشف ہوتا کہ یہ حضرت مولانا محمد عبداللہ ہیں ۔ پھر درس کیا ہوتا، ایک جادو ہوتا تھا۔جس موضوع پر گفتگو کرتے جاتے، ہر ہر بات سامع کے دل میں اُترتی چلی جاتی۔ بات کرنے کا ڈھنگ اور سمجھانے کے ڈھب سے خوب واقف تھے۔ ہر روز ایک نئے موضوع پر درس ہوتا۔ ایسے ایسے موضوعات چھیڑتے پھر ان پر سیر حاصل بحث کرتے کہ دوبارہ، سہ بارہ سننے کو جی چاہتا مگر ایک لمباعرصہ ان کے زیر سایہ گزارنے کے باوجود آج تک انہوں نے دوبارہ کسی سابقہ موضوع کونہ چھیڑا۔مولانا کی قوتِ بیانیہ اس قدر ٹھوس اور عام فہم ہوتی کہ اردو زبان میں فصیح وبلیغ تقریر کرنے کے مدعی حضرات کی تقریرمیں وہ کیف اور لطف نہ ملتا جو مولانا کے خطاب سے حاصل ہوتا تھا۔“ مولانا کا خطبہ جمعہ بھی مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح عوامی انداز میں بہترین خطبہ ہوا کرتا تھا، جس میں ملک میں پیش آمدہ مسائل، ان کا تجزیہ پھر ان کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں اس قدر تفصیل سے دیا جاتا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جاتا۔ بدعات اور کفر و شرک کے خلاف جہاد مولانا کے خطبات کی اصل روح ہوتے تھے۔ اگرچہ تقریر کی طرف میلان کم تھا مگر وہ خطبہ سے ہی تقریر کا کام نکال لیا کرتے تھے، ویسے بھی تدریسی مشاغل اور تعلیمی و خطابتی ذمہ داریاں اس قدر حاوی رہیں کہ جلسوں میں تقریریں کرنے کے مواقع
Flag Counter