بندوں کے لئے۔“ (سبا:۱۸،۱۹) قرآن حکیم نے جب اہل عرب کو سبا اور سیل عرم کا یہ واقعہ سنایا تو اس وقت یمن کا ہرآدمی ا س حقیقت کا بچشم خود مشاہدہ کررہا تھا اور وہ تمام خاندان بھی جو حجاز، شام، عمان، بحرین، نجد میں اس حادثہ کی بدولت پناہ گزیں ہوگئے تھے، اپنے آباؤ اجداد کے اس مرکز کی حالت ِزار کو دیکھ او رسن رہے تھے۔ حتیٰ کہ ہمدانی جو کہ چوتھی صدی ہجری کا مشہور سیاح ہے ، اپنی کتاب ’اکلیل‘ میں یمن کے اس حصے کے متعلق اپنی عینی شہادت پیش کرتا ہے کہ قرآنِ حکیم نے جنتان عن یمین و شمال کہہ کرجن باغوں کاذکر کیا ہے بلا شبہ آج بھی ان کی جگہ اس قدر کثرت سے پیلو کے درخت موجود ہیں کہ اتنی کثرت کے ساتھ اور کہیں نہیں پائے جاتے اور انہی درختوں کے ساتھ جھاؤ اور کہیں کہیں جنگلی بیر کے درخت بھی نظر آتے ہیں اور وہ دیدہ بینا کو عبرتناک داستان سنا رہے ہیں۔ فاعتبروا ياولی الابصار! جو قوم فرمانِ نبوی کے سامنے جھکنے کی بجائے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر کمربستہ ہوجائے ، اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار میں کمی کرکے انہیں غربت و افلاس، فقر و فاقے اور بیماریوں میں مبتلا کردیتے ہیں : ”سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں غلہ منڈی میں گئے اور جاکر اناج کے ڈھیروں کا معائنہ کرنے لگے۔ ایک جگہ آپ نے نہایت عمدہ اناج دیکھا اور فرمایا کہ اللہ اس غلے میں برکت عطا فرمائے اور اس کے لانے والے پر بھی رحم و کرم فرمائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ اس غلہ کے مالکوں نے اس کو سٹاک کیا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ وہ کون ہیں جنہوں نے اُمت کی ضرورت کے وقت اس غلہ کو سٹاک کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ فلاں فلاں آدمی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو طلب کرکے فرمایا کہ ”میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو آدمی امت ِمسلمہ کی ضرورت کے وقت اناج سٹاک کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ کی بیماری لگا دیں گے یا اسے غربت و افلاس میں مبتلا کردیں گے۔“ ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے وہاں کھڑے ہی اللہ کے حضور توبہ کرلی اور آئندہ ذخیرہ اندوزی نہ کرنے کا اللہ سے وعدہ کرلیا لیکن دوسرے آدمی نے کہا کہ یہ ہمارا اناج ہے، ہم جب چاہیں اور جیسے چاہیں خرچ کریں کسی کو کیا اعتراض ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو کوڑھ کی بیماری میں مبتلا کردیا اور وہ اسی حال میں مرگیا۔ (مسند احمد ، مسندعمر بن خطاب: ۱۳۰) فریضہ امر بالمعروف سے روگردانی: جو قوم امر باالمعروف ونہی عن المنکر کے شرعی فریضے کو چھوڑ دیتی ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی زد میں آجاتی ہے۔ حذیفہ بن یمان سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ لتأمرن وتنھون عن المنکر اولیوشکن اللہ ان یبعث علیکم عذابا منہ فتدعونہ فلا یستجاب لکم (جامع ترمذی، کتاب الفتن:۲۰۹۵) |