کے ساتھ بغاوت کا اعلان کردو۔ سوچو اور غور کرو کہ یہ بری راہ ہے اور اس کا انجام نہایت خطرناک ہے۔ ابن منبہ کے حوالے سے محمد بن اسحق بیان کرتے ہیں کہ خوشحالی کے ان دنوں میں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے تیرہ نبی فریضہ رسالت ادا کرنے آئے مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور اپنی موجودہ خوشی اور عیش کو دائمی سمجھ کر کفروشرک کی بدمستیوں میں مبتلا رہے۔ بالآخر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی بدولت ان کا انجام بھی وہی ہوا جو گذشتہ زمانہ میں اللہ کی نافرمان قوموں کا ہوتا ہے اور اللہ نے ان پر دو طرح کے عذاب مسلط کردیئے : پہلی سزا: سیل عرم، جس کی بدولت ان کے جنت نظیر باغات برباد ہوگئے اور ان کی جگہ جنگلی بیریاں ، خاردار درخت اور پیلو کے درخت اُگ کر یہ شہادت دینے اور عبرت کی کہانی سنانے لگے کہ خدا کی پیہم نافرمانی اور سرکشی کرنے والی اَقوام کا یہی حشر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ وہ ڈیم جس کی تعمیر پر ان کو بڑا فخر و ناز تھا اور جس کی بدولت ان کے دارالحکومت کے دونوں جانب تین سو مربع میل تک خوب صورت اور حسین باغات اور سرسبز و شاداب کھیتوں اور فصلوں سے چمن گلزار بنا ہوا تھا، وہ ڈیم خدا کے حکم سے ٹوٹ گیا اور اچانک اس کا پانی زبردست سیلاب بن کر وادی میں پھیل گیا اور مآرب اور اس کے تمام حصہ زمین پرجہاں یہ راحت بخش باغات تھے، چھا گیا اور ان سب کو غرقاب کرکے برباد کردیااور جب پانی آہستہ آہستہ خشک ہوگیا تو اس پورے علاقے میں باغوں کی جنت کی جگہ پہاڑوں کے دونوں کناروں سے وادی کے دونوں جانب جھاؤ کے درختوں کے جھنڈ، جنگلی بیروں کے درخت اور پیلو کے درختوں نے لے لی جن کا پھل بدذائقہ تھا۔ اور خدا کے اس عذاب کو اہل مآرب اور قومِ سبا کی کوئی قوت و سطوت نہ روک سکی اور فن تعمیر اور انجینئرنگ کے کمال بھی ان کے کام نہ آئے او ر قوم سبا کے لئے اس کے سوا کوئی چارہٴ کار باقی نہ رہا کہ اپنے وطن مألوف اور بلدہٴ طیبہ مآرب اور نواح کو چھوڑ کر منتشر ہوجائیں ۔ قرآن حکیم نے اس عبرت ناک واقعہ کو بیان کرکے دیدہ نگاہ اور بیدار قلب انسان کو نصیحت کا یہ سبق سنایا ہے : ﴿فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ وَاَثْلٍ وَشَيْیٴ مِنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ ذٰلِکَ جَزَيْنٰهُمْ بِمَا کَفَرُوْا وَهَلْ نُجٰزِی إلاَّ الْکَفُوْرُ﴾ ”پھر انہوں (قومِ سبا ) نے ان پیغمبروں کی نصیحتوں سے منہ پھیر لیا پس ہم نے ان زور کا سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے دو عمدہ باغوں کے بدلے دو ایسے باغ اُگا دیئے جو بدمزہ پھلوں جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں کے جھنڈ تھے۔ یہ ہم نے ان کو ناشکرگزاری کی سزا دی او رہم ناشکری قوم ہی کو سزا دیا کرتے ہیں “ (سبا: ۱۶،۱۷) دوسری سزا: مآرب کے ڈیم ٹوٹ جانے پر جب شہر مآرب اور ا س کے دونوں جانب کے علاقے سرسبز کھیتوں ، خوشبودار درختوں اور عمدہ میوؤں اور پھلوں کے شاداب باغوں سے محروم ہوگئے تو ان بستیوں |