Maktaba Wahhabi

33 - 86
اس سے معلوم ہوا کہ جو قوم کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے اَوامر و نواہی سے پہلوتہی کرے ، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کے دروازے بندکردیتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب کرلیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مسحتق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ قرآن حکیم نے قومِ سبا پر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار اور لامحدود انعام و اکرام کئے۔ دنیوی سج دھج، کروفر اور مال و زر کی کثرت کی وجہ سے انہیں ہمہ قسم کی نعمتیں میسر تھیں اور ان تمام چیزوں پر مستزادیہ تھا کہ یمن سے شام تک جس شاہراہ پر اہل سبا کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت تھی، اس کے دونوں جانب حسین و جمیل باغات اور خوشبودار درختوں کا سایہ تھا اور قریب قریب فاصلہ پر ان کے سفر کو آرام دہ بنانے کے لئے کاروان سرائے بنی ہوئیں تھی جو شام کے علاقہ تک ان کو اس آرام کے ساتھ پہنچاتی تھیں کہ پانی، میوؤں اور پھلوں کی کثرت یہ بھی محسوس نہیں ہونے دیتی تھی کہ وہ اپنے وطن میں ہیں یا دشوار گزار سفر میں حتیٰ کہ جب خوش گوار سایہ اور راحت بخش ہوا میں ان کا کارواں سراؤں میں ٹھہرتا، پرلطف میوے اور تازہ پھل کھاتا، ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیتا ہوا حجاز اور شام تک آمدورفت رکھتا تو ہمسایہ قومیں رشک و حسد سے ان پر نگاہیں اٹھاتیں اور تعجب و حیرت کے ساتھ ان کی اس عیش و عشرت پرانگشت بدنداں ہوجاتی تھیں ۔ قرآنِ حکیم کی ان آیات میں قوم سبا کی خوشحالی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَقَدْ کَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْکَنِهِمْ آيَةً ، جَنَّتَانِ عَنْ يَمِيْنٍ وَشِمَالٍ کُلُوْا مِنْ رِزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَهُ بَلْدَةً طَيِّبَةً وَرَبٌّ غَفُوْرٌ﴾ (سبا:۱۵) ”بلاشبہ اہل سبا کے لئے ان کے وطن میں قدرتِ الٰہی کی عجیب و غریب نشانی تھی۔ دو باغوں کا (سلسلہ) دائیں بائیں (اور اللہ نے ان کو فرما دیا تھا) کہ اے سبا والو! اپنے پروردگار کی جانب سے بخشی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر کرو، شہر ہے پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشنے والا“ چنانچہ اہل سبا ایک عرصہ تک تو اس جنت ارضی کو اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہی سمجھتے رہے اور حلقہ بگوش اسلام رہتے ہوئے اَحکام الٰہی کی تعمیل اپنا فرض سمجھتے رہے لیکن دنیوی ٹھاٹھ باٹھ اور عیش و عشرت نے ان میں بھی وہی بداخلاقی اور کردارپیدا کردیئے جو ان کی پیشرو متکبر اور مغرور قوموں میں موجود تھے حتی کہ حالت یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے دین حق کو بھی خیرباد کہہ دیا اور کفر و شرک کی سابقہ زندگی کو پھر اپنا لیا، تاہم ربّ ِغفور نے فوراً گرفت نہیں کی بلکہ اس کی وسعت ِرحمت نے قانونِ مہلت سے کام لیااور انبیاء نے ان کو راہِ حق کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ ان نعمتوں کا مطلب یہ نہیں کہ تم دولت و ثروت اور جاہ و جلال کے نشہ میں مست ہوجاؤ اور نہ یہ کہ اخلاقِ کریمانہ کو چھوڑ بیٹھو اور کفر وشرک اختیار کرکے خدا
Flag Counter