حشمت اور ظاہری چمک و دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر اور جاہ و جلال کے مظاہر سے مرعوب کرنے کے لئے ایک دن بڑے متکبرانہ انداز کے ساتھ نکلا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغامِ الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت کے ساتھ خاص شان و شوکت میں خزانوں کی نمائش کرتے ہوئے سامنے سے گزرا ، اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک جتھا رکھتاہوں اور زرو جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کوشکست دے کر رہوں گا۔ بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں انسانی کمزوری نے جذبہ پیدا کیا اور وہ بے چین ہو کر یہ دعا کرنے لگے: اے کاش! یہ دولت و ثروت ہم کو بھی حاصل ہوتی مگر بنی اسرائیل کے اربابِ حل و عقد نے فوراً مداخلت کی اور ان سے کہنے لگے کہ خبردار اس دنیوی زیب و زینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا تم عنقریب دیکھو گے، اس مال و دولت کا انجام کیسا ہونے والا ہے؟ آخر کار جب قارون نے کبرونخوت کے خوب مظاہرے کرلئے اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں حد درجہ زور صرف کرلیا تو اب غیرتِ حق حرکت میں آئی اور پاداشِ عمل کے فطری قانون نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کردیا: ﴿فَخَسَفْنَا بِه وَبِدَارِهِ الاَرْضَ﴾ ”ہم نے قارون اور اس کے سرمایہ کو زمین کے اندر دھنسا دیا“ اور بنی اسرائیل کے سامنے اس کا غرور باقی رہا، نہ سامانِ غرور سب کو زمین نے نگل کر سامانِ عبرت بنا دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس واقعہ کو سورہ قصص میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ مال و دولت کے ملنے پرشکر کے بجائے اگر تکبر و غرور کیاجائے تو اللہ وہ مال و دولت اور رزق کی فروانی کو تباہ و برباد کرکے اپنا عذاب مسلط کردیتے ہیں ۔ ﴿فاعتبروا ياولی الابصار﴾ جو قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے ناشکری کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے وہ نعمتیں چھین کر انہیں مختلف طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ قرآنِ میں اللہ نے فرمایا ﴿ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً قَرْيَةً کَانَتْ آمِنَةً يَأتِيْهَا رِزْقُهَا رَغًدًا مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا يَصْنَعُوْنَ﴾ (النحل:۱۱۲) ”اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال دیتا ہے، وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو وافر رزق پہنچ رہاتھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کردیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ خوف اوربھوک کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں “ |