Maktaba Wahhabi

31 - 86
میں بھی منکر کو وہی شقاوت پیش آئی : ﴿وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهِ فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ کَفَّيْهِ عَلَی مَا أنْفَقَ فِيْهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰی عُرُوْشِهَا وَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِیْ لَمْ أشْرِکْ بِرَبّیْ أحَدًا﴾(الکہف: ۴۲) ”آخر کار ہوا یہ کہ اس کا سارا پھل مارا گیا اوروہ اپنے انگور کے باغ کوٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا، کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا“ اور یہی روزِ بد فرعون کو دیکھنا پڑا کہ وقت گزرنے کے بعد اس نے کہا: اگر عذاب کے مشاہدے سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت مان لیتا تو اس دردناک عذاب کی لپیٹ میں نہ آتا: ﴿حَتّٰی إذَا أدْرَکَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ أنَّهُ لاَ اِلٰهَ إلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِهِ بَنُوْإسْرَائِيْلَ وَإنَّا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ،آلئنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلَ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ﴾ (یونس:۹۰) ”یہاں تک کہ جب وہ (فرعون) غرقاب ہونے لگا تو اس نے کہاکہ میں اقرار کرتا ہوں کہ کوئی الٰہ نہیں سوائے اس ذات کے جس پربنواسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوتا ہوں ، اللہ کی طرف سے جواب آیا اور اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا۔“ قارون کا قصہ کبر ونخوت: قارون کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کے خزانے وافر مقدار میں عطا فرمائے تھے، اس کے خزانوں کی چابیاں اٹھانے کے لئے قوی ہیکل مزدوروں کی جماعت درکار تھی۔ اس تمول اور سرمایہ داری نے اس کو بے حد مغرور کردیا تھا اور وہ دولت کے نشہ میں اس قدر چور تھا کہ اپنے عزیزوں ،قرابت داروں اور قوم کے افراد کو حقیر و ذلیل سمجھتا اور ان کے ساتھ حقارت سے پیش آتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم نے ایک مرتبہ ان کو نصیحت کی کہ ”اللہ تعالیٰ نے تجھے بے شمار دولت و ثروت بخشی اور عزت و حشمت عطا فرمائی ہے۔لہٰذا اس کا شکر کر اور مالی حقوق زکوٰة و صدقات دے کر غربا ، فقرا اور مساکین کی مدد کر، خدا کو بھول جانا اور اس کے اَحکام کی خلاف ورزی کرنا اَخلاق و شرافت دونوں لحاظ سے سخت ناشکری اور سرکشی ہے۔ اس کی دی ہوئی عزت کا صلہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تو کمزوروں اور ضعیفوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے اور تکبر و غرور میں غریبوں اور عزیزوں کے ساتھ نفرت سے پیش آئے۔ “ قارون کے جذبہ انانیت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہا: موسیٰ یہ میری دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا نہیں ہے، یہ تو میرے عقلی تجربوں اور عملی کاوشوں اور ہنرمندی کا نتیجہ ہے :﴿ إنَّمَا اُوْتِيْتُهُ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِی﴾، میری تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کرسکتا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام برابر اپنے فریضہ تبلیغ کو سرانجام دیتے رہے اور قارون کو راہِ ہدایت دکھاتے رہے۔ قارون نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کو زِچ کرنے اور اپنی دولت و
Flag Counter