بجائے درگاہِ حق میں جبیں نیاز جھکا کر اعترافِ نعمت کرے اور دل و زبان سے دونوں سے اقرار کرے کہ خدایا اگر تو یہ عطا نہ فرماتا تو ا ن کا حصول میری اپنی قوت و طاقت سے باہر تھا۔ یہ سب تیرے ہی عطا و نوال کاصدقہ ہے : ﴿وَلَولاَ إذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَاشَاءَ اللّٰهُ لاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللّٰهِ ﴾ (الکہف: ۳۹) ”اور اپنے باغ میں داخل ہوتے وقت تو نے یوں کیوں نہ کہا کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔“ صحیح حدیث میں ہے کہ لاحول ولا قوة الا باللہ جنت کے پوشیدہ خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے کہ بندہ اعتراف کرے کہ بھلائی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر نہ ممکن ہے یعنی جس شخص نے زبان سے اقرار اور دل سے اس حقیقت کااعتراف کرلیا گویا کہ اس نے جنت کے مستور خزانوں کی کنجی حاصل کرلی۔ اس کے برعکس کافر کی حالت یہ ہے کہ اس کو جب دولت و ثروت اور جاہ و جلال میسر آجائے تو وہ خودی میں آکر مغرور ہوجاتا ہے اورجب اسے خدا کا کوئی نیک بندہ سمجھتا ہے کہ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے، اس کا شکر کر تو وہ اکڑ کر کہتا ہے:﴿إنَّمَا اُوْتِيْتُهُ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ﴾ کہ ”یہ خدا کا دیا ہوا نہیں بلکہ میری اپنی دانائی اور علم و ہنر کا نتیجہ ہے۔“ موٴمن اور کافر کو اللہ کی طرف سے بھی الگ الگ جواب ملتا ہے جسے اس طرح بیان کیا گیا ہے : ﴿أيَحْسَبُوْنَ أنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِه مِنْ مَالٍ وَّبَنِيْنَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِیْ الْخَيْرَاتِ بَلْ لاَيَشْعُرُوْنَ ، إنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبّهِمْ مُشْفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُوٴمِنُوْنَ ، وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لاَ يُشْرِکُوْنَ وَالَّذِيْنَ يُؤتُوْنَ مَا اَتَوْا وَقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ أنَّهُمْ إلٰی رَبِّهِمْ رَاجِعُوْنَ ، اُوْلٰئِکَ يُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُوْنَ﴾ (المومنون: ۵۵) ”کیا (یہ کافر) لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد سے اس لئے ان کی امداد کر رہے ہیں کہ بھلائی پہنچانے میں سرگرمی دکھائیں ، نہیں مگر وہ شعور نہیں رکھتے (کہ ان کے بارے میں حقیقت حال دوسری ہے یعنی قانونِ مہلت کام کر رہا ہے) اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اس کی نشانیوں پریقین رکھتے ہیں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اس کی راہ میں جو کچھ دے سکتے ہیں ، بلا تامل دیتے ہیں اور پھر بھی ان کے دل ترساں رہتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور لوٹنا ہے تو بلا شبہ یہ لوگ ہیں جوبھلائیوں میں تیزگام ہیں اور یہی ہیں جو اس راہ میں سب سے آگے نکل جانے والے ہیں ۔“ ۴۔ سعید وہ ہے جو انجام سے قبل حقیقت ِانجام کو سوچ لے اور انجام کار سعادت ِابدی و سرمدی پائے اور شقی وہ ہے جو انجام پر غور کئے بغیر غرور و نخوت کا اظہار کرے اور انجامِ بد دیکھنے کے بعد ندامت وحسرت کا اِقرار کرے اور اس وقت یہ ندامت و حسرت اس کے کچھ کام نہ آئے ۔ چنانچہ اس واقعہ |