Maktaba Wahhabi

62 - 70
وَلٰكِنْ لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِيٌ (البقرة: ۲۶۰) اے ميرے رب مجھے دكھا کہ تو مردے كس طرح زنده کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کیا تو ایمان نہیں لایا؟ فرمایا ایمان تو لایا ہوں لیکن اطمینان قلب کرنا چاہتا ہوں ۔ یعنی علم الیقین سے عین الیقین کرنے کی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا چار جانور لے اور ان کو ذبح کر کے خلط ملط کر کے پہاڑوں پر رکھ پھر ان کو بلا۔ وہ زندہ ہو کر تیرے پاس دوڑے آئیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان تینوں واقعات سے ثابت ہوا کہ بڑی بڑی ہستیاں حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی خدا کی تعلیم اور رہنمائی کے محتاج ہیں ۔ مذکورہ بالا تمام آیاتِ قرآنیہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے بندوں کے علم و ہدایت کی خاطر احکام نازل کئے اور انبیاء کے ذریعے ہر مشکل وقت میں ان کی راہنمائی فرمائی اور یہ کہ انسان ہر زمانہ اور ہر وقت میں تعلیم الٰہی کا محتاج رہا ہے اور محتاج رہے گا اور پھر ان تمام تعلیماتِ الٰہیہ کو قرآن مجید میں جمع کر کے (مجملہ ان تمام علوم کے جو امت محمدیہ کے حق میں بالخصوص نازل کئے گئے ہیں ) امت محمدیہ کو ان تمام سے روشناس کرا دیا۔ اب اگر ہمارا یہ ایمان ہے کہ قرآن مجید خداوند کریم کی آخری کتاب ہے، اس کے بعد کوئی کتابِ الٰہی نازل نہ ہو گی اور یہی ایک ایسی کتاب ہے جواب قیامت تک لوگوں کی رہنمائی اور رشد و ہدایت کی باعث ہو گی تو ہمیں قرآن مجید کی ضرورت اور اہمیت کو بلا حیل و حجت تسلیم کرنا پڑے ا اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ اہمیت اس قدر اہم ہے کہ اس کے بغیر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور جو یہ کوشش کرے گا تباہی کے مہیب غار اس کو اپنی آغوش میں لے لیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج جو قومیں قرآن مجید کو ایک فرسودہ کتاب قرار دیتے ہوئے اس سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں ان میں انسانیت نام کو بھی باقی نہیں رہی، ان میں سود خوری، شراب نوشی، جوا بازی، حرام کاری، عورتوں سے بڑھ کر مردوں سے ناجائز اختلاط، قتل و غارت گری، انکارِ خدا، انکارِ رسول جیسی قبیح عادات ویسے ہی رواج پا چکی ہیں جیسے پہلی معتوب و مغضوب قوموں میں موجود تھیں ۔ لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ دور کے مسلمان بھائی بھی ان برے افعال کے ارتکاب سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ بھی بلا شبہ قرآنی تعلیمات کو فراموش کر دینے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان کا منصب
Flag Counter