نے فرمایا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو مغرب سے لا کر دکھا، وہ ایسا مخبوط الحواس ہوا کہ بول بھی نہ سکا اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے پہلے حدوثِ عالم اور اس کے تغیر و تبدل سے خدا کی ہستی پر استدلال فرمایا کہ وہ جو نیست کو ہست اور ہست کو نیست کرتا ہے یعنی بے جانوں کو جاندار اور جانداروں کو بے جان کرتا ہے، خدا ہے وہ نہ سمجھا تو پھر ایسی دلیل پیش کی جس کے سامنے وہ بول بھی نہ سکا اور گونگا ہو کر رہ گیا۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے ابراہیم کی نمرود کے مقابلہ میں ایسی مدد اور رہنمائی فرمائی کہ اس کی خدائی باطل کر کے رکھ دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت ہی کا نتیجہ تھا۔ فَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اس کے بعد دوسرا واقعہ عزیز علیہ السلام کا ہے۔ اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّھِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِ ھَا قَالَ اَنّٰي يُحْي ھٰذِه اللهُ بَعْدَ مَوْتِھَا فَاَمَاتَه اللهُ مِأَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَه الاٰية (البقره: ۲۵۹) یعنی کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک بستی (بیت المقدس) پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ اس نے کہا، اللہ اس کو کس طرح زندہ کرے گا؟ اللہ نے اس کو سو سال تک مار دیا پھر اس کو زندہ کر کے پچھا تو یہاں کتنی دیر رہا؟ اس نے کہا، ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ نے فرمایا، بلکہ تو یہاں سو برس رہا۔ پس اپنے کھانے اور پینے کو دیکھ بدبو دار نہیں ہوا اور گدھے کو دیکھ کہ ہم اس کی ہڈیاں کس طرح جوڑتے ہیں اور گوشت پوست کس طرح چڑھاتے ہیں اور زندہ کیونکر کرتے ہیں پس جب اس نے یہ سب کچھ دیکھا تو بول پڑا کہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے عزیز علیہ السلام کو رہنمائی فرمائی اور علم الیقین سے ان کو عین الیقین کے مقام تک پہنچایا جو ہمارے لئے بھی عین الیقین کا درجہ رکھتا ہے جیسا کہ فرمایا ولنجعلک اية للناس یعنی ہم نے تیرے اور تیرے گدھے کے زندہ ہونے کو لوگوں کے لئے مردوں کے زندہ ہونے کی دلیل بنایا۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ مذکور ہے کہ ان کو بھی علم الیقین سے عین الیقین حاصل کرنے کا شوق لاحق ہوا تو انہوں نے بھی سوال کر دیا۔ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْي الْمَوْتٰي قَالَ اَوَلَمْ تُوْمِنْ قَالَ بَلٰي |