’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے يتيم عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس بارے میں فتویٰ دیتے ہیں (اس کے بعد پورا فتویٰ مذکور ہے) اسی طرح: يَسْتَفْتُوْنَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْ الْكَلَالَةِ (النساء: ۱۷۷) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے كلالہ كے بارے ميں فتویٰ پوچھتے ہيں ، آپ فرما دیجیے اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں (اس کے بد کاللہ کے بارے میں فتویٰ مذکور ہے) اب عامۃ المسلمین کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ اَللهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰي النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَوْلِيَآءُھُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَھُمْ مِنَ النُّوْرِ اِلٰي الظُّلُمٰتِ، اُولٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ (البقرة: ۲۵۷) یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں كا دوست ہے ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اس کے برعکس کفار، شیطان کے دوست ہیں جو انہیں نور کی طرف سے ہٹا کر تاریکیوں میں دھکیلتا ہے۔ اس کے بعد بطور مثال اللہ تعالیٰ تین واقعات بیان کرتے ہیں جن میں عام انسان تو کجا اللہ کے برگزیدہ بندے بھی تعلیم سماوی کے محتاج ہوئے۔ چنانچہ پہلا واقعہ ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا ہے جس کا ذِکر قرآن یوں کرتا ہے۔ اَلَمْ تَرَ اِلٰي الَّذِي حَآجَّ اِبْرَاھِيْمَ فِيْ رَبِّهِ اَنْ اٰتٰهُ اللهُ الْمُلْكَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِيْمُ رَبِيَ الَّذِيْ وَيُمِيْتُ قَالَ اَنَا اُحْي وَاُمِيْتُ قَالَ اِبْرَاھِيْمُ فَاِنَّ اللهَ يَاتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِيْ كَفَرَ ط وَاللهُ لَا يَھْدِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ (البقرة: ۲۵۸) یعنی کیا آپ نے اس شخص كو نهيں ديكھا جس كو الله نے بادشاہت دی اور وہ بادشاہی کے تکبر میں خدائی دعویٰ کر بیٹھا۔ ابراہیم علیہ السلام سے ان کے رب کے بارہ میں جھگڑا۔ ابراہیم نے فرمایا۔ میرا رب وہ ہے جو مردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مارتا ہے۔ اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، ابراہیم علیہ السلام |