’’یعنی یعقوب علیہ السلام صاحبِ علم تھے اس لئے کہ ہم نے ان کو علم سکھایا تھا اور اکثر لوگ بے علم ہیں ۔‘‘ ۵۔ حضرت یوسف علیہ السلام من جانب اللہ تعلیم کے یوں معترف ہیں :۔ عَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ (يوسف: ۱۰۱) ’’اے میرے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر سکھائی۔‘‘ ۶۔ داؤد علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے: اٰتَاهُ اللهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَه مِمَّا يَشَاءُ (البقرة: ۲۵۱) ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو بادشاہی اور دانائی کی باتیں سکھائیں اور جو چاہا سکھایا۔ نیز: وَعَلَّمنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْ بَاسِكُمْ فَھَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْن (الانبياء: ۸۰) ’’اور ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہ بنانے کی ترکیب بتائی تاکہ یہ تمہیں جنگ میں زخمی ہونے سے بچائے۔ تو کیا تم شکر نہیں کرتے؟‘‘ ۷۔ حضرت سلیمان علیہ السلام انعام الٰہیہ کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيءٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنِ (النمل: ۱۶) ’’اے لوگو! ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے۔‘‘ ۸۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع علیہ السلام کے متعلق ارشادِ ربانی ہے: فَوَجَدَا عَبْدً مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (الكهف: ۶۵) ’’پس موسیٰ علیہ السلام اور یوشع علیہ السلام نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ (حضرت خضر علیہ السلام ) پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی اور اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔ ‘‘ ۹۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جبکہ وہ ابھی ’’مہد‘‘ ہی میں تھے تعلیماتِ الٰہیہ سے مستفیض ہونے کا یوں ذِکر فرماتے ہیں : |